سانحہ مری۔ ذمہ دار کون؟


ریاست مدینہ کے خلیفہ حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاس سے مر گیا تو روز قیامت پکڑ حکمران وقت کی ہوگی۔ وزیراعظم صاحب اٹھتے بیٹھتے ریاست مدینہ کے حوالے دیتے ہیں مگر ان تک شاید حضرت عمرؓ کا یہ فرمان نہیں پہنچا۔ ورنہ جس وقت دارالحکومت سے نصف گھنٹے کی دوری پر برف کے طوفان میں پھنسے لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے تھے وہ اور ان کی حکومت کے دیگر ذمہ داران اپنے آسائش کدوں کے گرم بستروں پر محو استراحت نہ ہوتے۔

کبھی کبھار سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کسی انسان کے قول و فعل کا تضاد اتنا جلد بھی سامنے آ سکتا ہے اور اس تواتر کے ساتھ کسی کے ادا کیے گئے الفاظ کو قدرت خود اس کے لیے رسوائی بنا کر سامنے لا سکتی ہے۔ ماضی قریب میں یہی عمران خان صاحب ہر حادثے کے بعد وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا کرتے تھے اور مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے کہ فلاں ملک کے حکمراں نے محض کشتی ڈوبنے پر اقتدار چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے اقتدار میں ہر روز کوئی نیا سانحہ رونما ہوتا ہے اور تاویلیں سن کر یقین نہیں آتا کہ یہ الفاظ اسی شخص کے ہیں جو محض تین سال قبل حکمرانوں کو اخلاقیات پر درس دیا کرتا تھا۔

اس افسوسناک واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان کا ٹویٹ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا جس میں انہوں نے ایک لحاظ سے مری آنے والے سیاحوں کو ہی اس سانحے کا ذمہ دار قرار دے ڈالا۔ حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ مری کی جانب گامزن کسی بھی شخص کو یہ کیسے علم ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے مری میں کتنی گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں اور وہاں کتنے لوگوں کے قیام کی گنجائش باقی ہے؟ ہر لحاظ سے یہ حکومت، مقامی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری تھی کہ اگر مری میں پارکنگ قیام اور راستوں کی حالت تسلی بخش نہیں تھی تو مزید افراد کو وہاں داخل ہونے سے روک دیا جاتا۔

اس بار حکومت اپنی نا اہلی کا الزام ماضی کے حکمرانوں پر تھوپ سکتی ہے اور نہ ہی اپنی نالائقی کو کسی بھی طرح جسٹیفائی کر سکتی ہے۔ کیونکہ سانحہ سے قبل وزیر اطلاعات فواد چوہدری ٹویٹر پر مری میں ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کے داخلے کی خبر دے چکے تھے۔ مری کی طرف بڑھتے سیاحوں کے اس اژدھام کو عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے سے تعبیر کرتے وقت کسی حکومتی ذمہ دار نے یہ کیوں نہ سوچا کہ جس جگہ صرف 4 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ اور ہوٹلوں میں بمشکل 10 ہزار لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش ہے وہاں جب اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں اور لوگ برفانی موسم میں آئیں گے تو کوئی بھی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ اپنی ہی کابینہ کے ایک اہم وزیر کے اس ٹویٹ کے بعد وزیراعظم کس طرح عوام کو مورد الزام ٹھہرا کر ذمہ داری سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ مری آنے والے سیاحوں اور گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کو اگر بر وقت روک لیا جاتا اور سڑکوں کی صفائی بر وقت شروع ہو جاتی تو یہ دلخراش واقعہ کس طرح پیش آتا؟

برف باری میں راستوں کو کلیئر رکھنا کوئی مشکل کام تھا اور نہ ہی پہلی بار مری میں برف باری ہوئی ہے۔ ہر اخبار میں رپورٹ ہوا ہے کہ مری میں برف باری کے موسم کے لیے ایک جامع پالیسی (sops) موجود ہے لیکن اس پر پنجاب حکومت نے عمل کرنے کے بارے میں ایک بھی اعلیٰ سطحی میٹنگ نہیں کی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت آنے سے قبل شہباز شریف اور پرویز الٰہی کی حکومتیں گزری ہیں لیکن کبھی بھی اس قسم کے حالات پیدا نہیں ہوئے۔

ماضی کے تمام وزرائے اعلیٰ برف باری سے قبل مری کے بارے میں باقاعدہ میٹنگ کرتے تھے اور متعلقہ محکموں کو انتظامات کے لیے بر وقت فنڈز جاری کرتے تھے۔ موجودہ حکومت کو تو اس معاملے میں اپنے دماغ کو زحمت دینے کی ضرورت بھی نہیں تھی نو صفحات پر مبنی ایک پالیسی پہلے سے موجود تھی جس میں برف باری سے نمٹنے کے لیے مختلف سرکاری محکموں کی ذمہ داریاں اور کام کرنے کا طریقہ کار پہلے سے تحریر ہے۔ محکمہ موسمیات بہت پہلے ہی شدید برف باری کی پیشگوئی کر چکا تھا۔

اس پالیسی کے مطابق اہم مقامات پر سڑک سے برف صاف کرنے والی مشینیں پہلے سے کھڑی ہونی چاہیے تھیں اور ایک مانیٹرنگ یونٹ قائم کر کے ٹریفک اور دیگر انتظامات کی نگرانی ضروری تھی۔ بدقسمتی سے لیکن ڈپٹی کمشنر لیول کا بندہ آسانی کے ساتھ جو کام کرا سکتا تھا موجودہ حکومت میں وہ بھی ڈھنگ سے نہیں کرا سکی جس کے سبب بائیس جانیں ضائع ہو گئیں۔

حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں مری کے ان باشندوں اور ہوٹل مالکان کی بھی مذمت ہونی چاہیے اور انہیں سزا بھی ملنی چاہیے جنہوں نے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خدمات کے من مانے پیسے وصول کیے اور لوگوں کو موسم کے رحم و کرم پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس میں شک نہیں کہ ہر جگہ اور قوم میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مری کا اجتماعی چہرہ یہی سفاکی اور بے حسی ہے۔ اس سے قبل بھی مری میں سیاحوں کے ساتھ بد تمیزی کے واقعات کئی بار رپورٹ ہو چکے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ مقامی لوگ پیسے اینٹھنے کی خاطر اکثر خود بھی راستے بند کرتے ہیں۔

آج سے پانچ سال قبل میرے سامنے مری میں ایک نوجوان جوڑے کی برف میں پھنسی گاڑی کو نکالنے کے لیے وہاں کے لوگ پندرہ ہزار طلب کر رہے تھے۔ ہمارے پاس دو گاڑیاں تھیں، چھوٹی گاڑی سائیڈ میں کھڑی کر کے جب ہم نے اپنی بڑی گاڑی کے ذریعے اس جوڑے کی گاڑی نکالنے کی کوشش کی تو مقامی لوگ ان کی مدد سے باز رکھنے کے لیے ہم سے جھگڑنے لگے۔ ان کی گاڑی تو خیر کسی طرح نکالنے میں ہم کامیاب ہو گئے لیکن یقین جانیں اس کے بعد کبھی دوبارہ مری جانے کی خواہش نہیں ہوئی۔

حالانکہ اس سے قبل ہم تقریباً ہر سال مری جایا کرتے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ ملک میں سیاحت کا فروغ ماضی کے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔ وزیراعظم عمران خان مگر ملکی معیشت کے لیے سیاحت کی اہمیت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ اس سانحے سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں مجروح ہوا ہے۔ غیر ملکی سیاح اس واقعے سے یہ تاثر لیں گے کہ پاکستان سیاحت کے لیے محفوظ ملک ہے اور نہ وہاں قدرتی سانحات سے نمٹنے کے لیے کوئی صلاحیت ہے۔ ہوٹل مالکان اور مقامی لوگوں کا رویہ بھی پاکستان کے لیے مزید بدنامی کا سبب بنا ہے۔ جو نقصان ہو چکا اس کا ازالہ تو نہیں ہو سکتا مگر اس سانحے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کو کڑی سزا ملنی چاہیے کہ تاکہ آئندہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ ملک کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments