کیا چین اپنا مصنوعی سورج پاکستان کو ادھار دے گا


وطن عزیز آزادی اظہار کے معاملے میں اتنا خود کفیل ہو چکا ہے کہ فیس بک سے ٹویٹر اور نیوز ویب سائٹس تک ہر طرف ہر دوسرا شخص اپنی نام نہاد دانش بھگارتا نظر اتا ہے مگر ان سب میں سر فہرست ”یوٹیوبرے“ ہیں جنھوں نے پوری قوم کو ”وخت“ ڈالا ہوا ہے۔ صرف ویوز حاصل کرنے کے لئے سنسنی خیزی اور جھوٹی سرخیوں سے عوام الناس میں ہیجان برپا کردینے والے یہ لوگ جھوٹ، گمراہی اور جہالت بیچ کر اپنے پیٹ بھرتے نظر آتے ہیں۔

حال میں میں چین کے مصنوعی سورج کی فیک وڈیو وائرل ہونے کے بعد ان ”یوٹیوبروں“ نے اسمان سر پر اٹھا لیا اور بناء تحقیق اس وڈیو کی بنیاد پر ایسی ایسی سرخیاں بنا کر وڈیوز اپلوڈ کی گئیں کہ الامان الحفیظ اور سونے پر سہاگا عوام کمینٹس میں کہیں اسے قیامت اور کہیں دجالی دور کی نشانی قرار دیتے نظر آئے کہیں دنیا کی تباہی کی سازش اور کہیں یہ تک پڑھنے کو ملا کہ چین چونکہ ہمارا دوست ملک ہے اس لئے وہ اپنا سورج کبھی کبھار ہمیں ادھار بھی دے دے گا۔

یوٹیوبروں نے یہ سارا دنگا فساد جس وڈیو پر مچایا وہ اصل میں ایک راکٹ لانچگ کی وڈیو تھی حقیقت میں چین نے کسی بھی قسم کا سورج نہیں بنایا اور نا ہی ایسی کوئی چیز ممکن ہو سکتی ہے تو پھر یہ سب کیا اور کیوں ہوا اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں نیوکلیئر فیوژن اور نیوکلیئر فشن کو سمجھنا پڑے گا مگر اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں بجلی پیدا کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں جن میں کوئلے سے بجلی، تیل سے بجلی، پانی یعنی ڈیمز سے بجلی، شمسی توانائی سے بجلی اور ایٹمی ری ایکٹر سے بجلی پیدا کرنا قابل ذکر ہیں۔

ایٹمی ری ایکٹر میں تابکار دھاتوں مثلاً یورینیم کے ایٹموں کو توڑا جاتا ہے جس سے انرجی پیدا ہوتی ہے جو بجلی بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے نتیجے میں اخر میں ایٹمی فضلہ یا تابکار عناصر پیدا ہوتے ہیں اور یہ خطرناک بھی ہے چرنوبل اور جاپان کے حادثات اس کی مثال ہیں یہی عمل نیوکلیئر فشن کہلاتا ہے جو ایٹم بموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف نیوکلیئر فیوژن کا عمل ستاروں کے مرکز میں وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے جہاں ہائیڈروجن ایٹم کے مرکزے اپس میں جڑ کر بے پناہ توانائی اور حرارت خارج کرتے ہیں جس سے ستاروں سے روشنی اور حرارت کا اخراج ہوتا ہے اور یہی کچھ ہمارے سورج میں بھی ہو رہا ہے۔ چین سمیت دنیا کے کئی ممالک عرصہ دراز سے فیوژن کے عمل کو لیبارٹری میں کنٹرول ماحول میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کئی سیکنڈ تک اس عمل کو کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں جب کہ چین نے بھی حال ہی میں صرف لیبارٹری میں فیوژن ری ایکٹر میں سورج سے کئی گنا زیادہ درجہ حرارت جو کہ کروڑوں ڈگری سینٹی گریڈ ہے کئی منٹ تک حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے چونکہ یہ بالکل وہی عمل ہے جو سورج میں وقوع پذیر ہوتا ہے اس لئے اس کو مصنوعی سورج کا نام دیا جا رہا ہے۔

اس عمل کے دوران پلازما اور ذرات کی مقدار بہت محدود ہوتی ہے اور اسے مقناطیسی فیلڈ کی مدد سے ری ایکٹر کے اندر معلق رکھا جاتا ہے اس لئے وہ اس کی دیواروں سے نہیں ٹکراتا۔ اس عمل کی خوبی یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہیلیم اور ٹریٹیم پیدا ہوتا ہے جس میں ہیلیم انسانوں کے لئے نقصان دہ نہیں جب کہ ٹریٹیم دیگر تابکار عناصر کی نسبت بہت جلد ختم ہوجاتا ہے اس لئے اس عمل کو نیوکلیئر فشن کی نسبت ماحول دوست قرار دیا جاتا ہے نیز اس زمین اور کائنات میں ہائیڈروجن کی مقدار دیگر عناصر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اس لئے ایندھن کے طور پر یہ بے حد سستا ہے حتی کہ پانی بھی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر ہی بنتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادے کو نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بنایا جا سکتا ہے اس لئے کائنات کی تشکیل کے وقت ابتدائی طور پر ہر طرف زیادہ تر ہائیڈروجن ہی موجود تھی جو اپس میں مل کر ہیلئیم میں تبدیل ہوتی گئی اور ستارے وجود میں آئے۔

نیوکلیئر فیوژن ای ریکٹر میں اگرچہ اس درجہ حرارت کو مستقل پیدا کیے رکھنے اور اس سے پیدا ہونے والی حرارتی توانائی سے بجلی کے حصول میں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں مگر ان تجربات کی کامیابی سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بجلی کی پیداوار کا مستقبل کا ذریعہ یہی فیوژن ری ایکٹر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments