کاشت سے برداشت تک….


\"shakoor

رکشہ ڈرائیور کے دلچسپ قصہ سے ایک پہلے مختصر تمہید …. کہنے کو چار لفظ ہیں…. غربت، جہالت ،مایوسی اور انتہاپسندی!
مگر قوموں کو گھن کی طرح کھا جانے والے چار عوامل بھی تویہی ہیں۔
ان چاروں بیماریوں میں سے محرک کیا ہے اور ثمر کیا؟ کون کسے پیدا کرتا ہے اور کون کسے ہڑپ رشتے اور مرتبے کی یہ بحث تفصیلی بھی ہے اور متنازعہ بھی! تاہم یہ طے ہے کہ غربت اورجہالت مایوسی کو جنم دیتی ہیں اور’ مایوسی‘ کسی ایک ذہن میں دھنس جائے یا معاشرے میں، نتیجہ ’انتہا پسندی‘ کی صورت میں سامنے آسکتاہے۔ اور یہ بھی کہ زوال پذیر معاشروں میں یہ چاروں بیماریاں ریاست کی عدم توجہی کے ہچکولوں سے جنم لیتی ہیں۔ لکیریںتیزی سے دراڑوںمیںڈھلتی ہیں۔دھیان نہ دیا جائے تو یہ دراڑیں غیر محسوس طور پرپہلے شگاف اور پھر سیلاب بن جاتی ہیںبلکہ آخر کاراجتماعی عذاب بن جاتی ہیں۔
سو آج بھی ایسا ہی ہے۔ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اپنے اردگر انہی دراڑزمینوں پر خوشنما قالین آراستہ ہیں۔
اخبارات دیکھئے تو بظاہر سب اچھا ہے۔کبھی کبھی زلزلہ آجاتا ہے ورنہ پاک انڈیا تعلقات سے عرب و عجم تعصبات تک بیرونی اورمغلیہ ترقیات سے عوامی مطالبات تک، سب روایتی خبریں ہیں۔ ہر ایک اپنے اپنے محاذ پر مکمل سازوآواز اور جواز کے ساتھ براجمان ہے۔ہاں ،اندرونی صفحات کی معمولی ،علاقائی، قصباتی بلکہ تعصباتی صفحہ کی خبروںسے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرہ میںمچھروں، گٹروںاور جیب کتروں کا تناسب کیا ہے۔مقامی علماوذاکرین خطبات میں باتصویر کیا فرماتے ہیں۔قحبہ خانے،این جی اوز اور مقامی حکومت کیسے چلاتے ہیں۔یہ حرمت کیا ہوتی ہے؟ غربت کیوں ہوتی ہے؟ شراب و شباب میں قربت کیوں ہوتی ہے ۔ ڈی سی او کے بے قرار ، دوشیزہ کے فرار اور ذخیرہ اندوزوں کے دو دو چار ہونے میں کیا الجھنیں ہیں وغیرہ وغیرہ مختصر یہ کہ سچی ،کھری اور بڑی خبریںباہر نہیں ، اندرملتی ہیں مغز کی طرح! بادام کی طرح! درد تہ جام کی طرح!
سو آئیے ۔ اندر دیکھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کے اخبار کے’اندر ‘کی ایک معمولی خبر یہ ہے کہ لاہور شہر میں فیروز والا روڈ پہ ایک رکشہ ڈرائیور کا چالان ہوا تو ڈرائیورنے مشتعل ہو کر اپنے ہی رکشے کو آگ لگا دی۔ سنگل کالم اس خبر کے ساتھ دھوئیں کے سیاہ بادلوں میں بھڑکتے اس رکشہ کی تصویر بھی موجود ہے جس کے سامنے علی چاند نامی رکشہ ڈرائیور اپنی کل متاع آگ میں جھونک کربین کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ ایک دلچسپ خبر اورمختلف تصویر تھی۔ بے سروپا ہنگامی جذباتیت اوراضطرارو اشتعال کی ایسی چھوٹی بڑی مثالیںاگرچہ دنیا بھر میں دکھائی دیتی ہیں مگر اپنے ہاں یہ ایک معمول کا واقعہ ہے۔ بس وین میں کرایہ کی بحث پرتھپڑ مکا سے لے کر مارکیٹ میں قیمت کے اتار چڑھاو¿ پر گالی گلوچ تک بلکہ شادی بیاہ کی گھریلو تقریبات میں خاندانی جھگڑوں سے لے کر گلی میں بچوں کے کھیلتے لڑتے بگڑتے واقعات کے خونیں بن جانے تک سب ’بڑے بڑے شہروں کی چھوٹی چھوٹی باتیں‘ ہیں تاہم اس رکشہ والے واقعے میں یہ انفرادیت ضرور ہے کہ یہاں مدعی نے دوسرے فرد سے جھگڑنے کے بجائے خوداپنا ہی نقصان کر ڈالا۔خبر پڑھیے تو بظاہر ڈرائیور کے موقف میں سچائی دکھائی دیتی ہے کہ شہر میں بند پمپس اورپٹرول کی عدم دستیابی کے باعث وہ دو گھنٹے تک رکشہ گھسیٹتے ہوا مال روڈ پر آیا اور یہاں بجائے اس کی مدد کرنے کے ٹریفک اہلکار نے مال روڈ پہ رکشہ لانے کے جرم میں اس کا چالان کر دیا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ علی چاند اپنے رکشہ کو کو آگ لگانے کے بعد یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہو بھی گیا توکیا فائدہ ہوا؟
رکشے ہوں یا ادارے، ہم میں سے اکثریت اسی جذباتیت اور اشتعال سے معاملات کو مزید بگاڑ لیتی ہے۔ زندگی کے اکثر مواقع پہ ہمارے تحفظات، تجزیات اور خدشات درست ہوتے ہیں۔ ہونے والی ناانصافی پہ بھی کوئی شک شبہ نہیں ہوتا لیکن ہمارا ردعمل اس گڑبڑ کو دور کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کر ڈالتا ہے۔ جیسے کہ رکشہ یونین نے جلے ہوئے رکشے پہ امداد کے لیے مشتعل جلوس نکالا توان پر نقص امن کا پرچہ ہو گیا۔ یعنی جلے رکشے کے نقصان کے بعد احتجاج کرنے سے امداد تو کیا ملنی تھی ،ہلڑبازی اور ٹریفک بلاک کرنے کے جرم میں پانچ رکشہ ڈرائیورز تھانے پہنچ گئے۔ یہ، بظاہر ایک معمولی واقعہ ہے لیکن پیغام غیرمعمولی ہے۔ پیغام یہ ہے کہ سسٹم اور نظام سے کٹ جانے پہ اصلاح ممکن رہتی ہے نہ مداوا! ایک کامیاب فرد ہوا کا رخ پہچاننے والافرد ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کب معاملات میں لیے دیے رہنا ہے اور کب دل کی بھڑاس نکالنی ہے ۔کب محرومیوں کو مجتمع کر کے اسے طاقت بنانا ہے اور کب گرم لوہے پہ چوٹ لگادینی ہے۔ ایسا متوازن مزاج توفیقی نہیں ، اکتسابی ہوتا ہے ۔بقول عزم بہزاد
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے، کئی روّیوں کی خاک چھ انی
انفرادی اختیاری عادات سے لے کر گھریلو مشاورتی فضا تک اور ملکی جمہوری رویوں سے لے کر اجتماعی قومی مزاج کی تشکیل تک ہر میدان کے بڑے اس گوہرکو اپنے چھوٹوں کی پرداخت، نمو اور افزائش و آرائش میں بطور ٹانک استعمال کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے دلچسپ مثالیں پیش کرتی ہے۔تلوار نکال کر آپ سے بدتمیزی کرنے والے گستاخ کا قلع قمع کیا جانے لگتا ہے کہ عظیم مدبر منع فرما دیتے ہیں۔ اُدھراپنے مقدس نام کے مٹادینے کے اصرار اوراِدھربے قرار فدائیوں کے شدید اضطرار کے باوجود مصلحت اور حکمت سے کام لیا جاتا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ روایتیں بہت عظیم بھی ہیں اور قدیم بھی!مگر ،ابھی، تقسیم ہند کے آرپارکے عہد تک تہذیب وسیاست میں تحمل و برداشت کی بیشمار مثالیں ملتی ہیں۔ جناح صاحب کو ہندوستانی رہنماکے کچھ ذاتی بلکہ جوالہ مکھی راز پہنچائے جاتے ہیں تو ’سب جائز‘ کے اصول کے تحت سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے یہ راز لانے والے جذباتی محب وطن ہی کو ڈانٹ دیتے ہیں اور دوسری طرف ،گاندھی صاحب پاکستان کو اس کا حق نہ دیے جانے پر بھوک ہڑتال کر دیتے ہیں۔ آج یہ سب تاریخی واقعات رنگین داستانیں اس لیے محسوس ہوتے ہیں کہ آج کے سیاسی لیڈرچوکوں چوراہوں میں (نام نہاد ہی سہی )جمہوری کارکنوںکو یوں مخاطب کرتے ہیں جیسے میرصاحب کو کوچہ¿ جاناں میں پکارا جاتا تھا
یوں پکارے ہیں مجھے ، کوچہ جاناں والے
اِدھر آ ، بے! ابے او! چاک گریباں والے!
مقتدر حساس اداروں کی ذاتی زندگیوں کی نگرانی اور اس کے منفی استعمال و استحصال وغیرہ کی ’جان لیوا بحثوں ‘میں پڑے بغیر یہی عرض کریںگے کہ آج انڈیا اور پاکستان میں تشدد کی سیاست اور عدم برداشت کا جوسماج بنتا دکھائی دے رہا ہے اس کی ذمہ داری ریاستی اداروں کے سر ہے کیونکہ ماں بچوں کو جو سکھاتی ہے ، وہی سیکھتے ہیں۔
تحمل، برداشت اور رواداری ماضی کی داستانوی لوریوں سے ملنے والی مقدس نیند نہیں ہوتی جو ہر خواہش کرنے والے کے پنگھوڑے میں آن اترے۔ یہ ایک غیرموسمی پھل ہوتا ہے۔ اسے کاشت کرنا پڑتا ہے نہ کریں تو پھر برداشت کرنا پڑتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments