توبہ یہ تبدیلی

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ کسی غریب لکڑہارے کی ایمانداری سے خوش ہو کر اسے تین خواہشیں عطا کی گئیں جو کہ منھ سے نکلتے ہی پوری ہو سکتی تھیں۔

لکڑ ہارا چونکہ غریب تھا اس لیے اپنی بیوی سے ڈرتا اور اسے پیر مانتا تھا یعنی پرلے درجے کا زن مرید تھا۔ یہ نوید سن کے کمان سے نکلے تیر کی طرح گھر پہنچا اور بیوی کو سارا واقعہ جڑ دیا۔

بیوی حسب معمول ایک سیانی عورت تھی۔ سمجھایا بجھایا کہ یہ تین خواہشات کیا ہوں۔ لکڑہارا، ایک تو مرد تھا اس پہ عمر بھر لکڑیاں چیر چیر کے بالکل ہی اخروٹ ہو چکا تھا۔ اس نے بیوی کو خوش دیکھا تو جھٹ تازہ گول روٹی کی فرمائش کر دی۔

بیوی روٹی پکا کر لائی تو وہ مزید پھیلا اور اس نے کہا دل چاہتا ہے کہ اس روٹی کے ساتھ تو کہیں سے گرم گرم سیخ کباب آ جائیں۔ کہنے کی دیر تھی غیب سے ایک تشت بھاپ اڑاتے کبابوں کا حاضر ہو گیا۔

ایک خواہش کو کبابوں کی صورت رائیگاں جاتے دیکھا تو بیوی نے لکڑہارے کو خوب صلواتیں سنائیں۔ لکڑہارا ایک روایتی شوہر بھی تھا جھٹ بولا کہ اس قدر بولتی ہو تم خدا کرے یہ سارے کباب تمہاری اس چپٹی ناک سے چمٹ جائیں۔

سارے کباب بیوی کی ناک سے چمٹ گئے۔ اس طرح دو خواہشات رائیگاں گئیں۔ تیسری خواہش ظاہر ہے کبابوں سے جان چھڑانا ٹھہری۔

یوں تینوں خواہشات بھی ضائع ہوئیں اور لکڑہارا غریب کا غریب رہ گیا۔

مری میں برفباری

پچھلے تین سوا تین برس میں یہ کہانی بارہا یاد آتی ہے۔ آزادی کی سات دہائیوں میں اس بے چاری قوم نے کسی معجزے کے انتظار میں بہت سخت وقت گزارا۔

انقلاب کی خواہش میں کیا کیا دکھ نہ جھیلے، احتساب کے خواب دیکھتے دیکھتے اندھے ہو گئے اور انصاف کی امید لیے سر کے بال پک گئے۔ لیکن جب خدا کو اس قوم پہ ترس آیا اور اس کی خواہشات پوری ہونے کا وقت آیا تو یہ اختیار جس شخص کو ملا وہ عین اس لکڑہارے کی طرح ایک ہڑبونگ مچائے ہوئے ہے۔

پاکستان کے حالات اس وقت اہل پاکستان ہی جانتے ہیں۔ چولہے میں گیس ندارد ہے اور بل حاضر، پٹرول کی قیمت مت پوچھیے، بجلی کے نرخ بالا سے بالاتر، دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بھی اسی حساب سے گراں تر ہوتی جا رہی ہیں۔

لے دے کے ایک سیاحت اور زراعت کے شعبے ایسے نظر آرہے تھے کہ ذرا بہتری کی گنجائش تھی۔ مگر اب اسے بد نصیبی اور بے برکتی پہ محمول کریں یا بد نیتی کی کوئی ایسی داستان جس کی تہہ میں بے حد ہلکا ذاتی مفاد چھپا ہوتا ہے کہ سیاحت کی طرف وزیر اعظم صاحب کی نظر اٹھتے ہی مری کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔

اس واقعے کے بعد جس منظم انداز میں مری کے ہوٹل مالکان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے دال میں کچھ کالا نظر آ رہا ہے۔

کسان، پاکستان

دوسری طرف یوریا کا بحران کاشتکاروں کو کھا رہا ہے۔ مبینہ طور پہ یہ ساری یوریا بنی تو پاکستان میں لیکن اب افغانستان میں دس ہزار فی بوری کے حساب سے بک رہی ہے۔

پاکستان میں ڈی اے پی دس ہزار روپے فی بوری قیمت کو پہنچ چکی ہے۔ گندم کی فصل کا جھاڑ کم آیا تو آٹے کا بحران پیدا ہو گا۔

مگر حکومت اس وقت کسی ضروری کام سے سو رہی ہے۔ جب جاگے گی تو بحران قحط کی شکل میں سامنے ہو گا اور یہاں سوائے ٹویٹ پہ ٹویٹ جڑنے کے کوئی ٹوٹکا ہاتھ میں نہ ہو گا۔

حالات کے اس تسلسل میں جب وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے افراد اڑنگ بڑنگ بیانات دیتے ہیں اور ٹویٹر پہ نئے نئے چہچہچے بکھیرتے ہیں تو جی چاہتا کہ یہ سارے سیخ کباب۔۔۔۔۔

جی ہاں دل یہ ہی چاہتا ہے لیکن پھر خیال یہ آتا ہے کہ سیخ کبابوں سے جان چھڑانے کے لیے بھی ہماری آرزو ہی قربان ہو گی اور وہ بھی آخری آرزو۔

اب تو صرف یہ دعا ہے کہ باقی کے دو سال حکومت کسی چیز کا نوٹس نہ لے، کسی شعبے پہ نظر نہ ڈالے، کوئی فیصلہ نہ کرے کسی طرح یہ مدت پوری کرے ۔

ہماری توبہ جو پھر کبھی تبدیلی کا نام لے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments