نہ کہنا سیکھیں


اکثر لوگوں کو دیکھا کہ تھکے ہارے بیٹھ کر دوستوں یا پھر رشتے داروں کے بے شمار کاموں کو کوستے رہتے ہیں جو جان بوجھ کر ان کے گلے ڈالے گئے تھے۔ وہ کام ایسے تھے کہ اگر وہ خود کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے مگر ان کے پاس ایک بندہ جو تھا کام کرنے کے لیے، سو اس کے گلے ڈال دیا گیا۔ اب اس بندے کی طبیعت ایسی ہے کہ یہ نہ نہیں کر سکتا۔ ایک دفعہ کسی نے کوئی کام کہہ دیا تو پھر مجبوراً کرنا ہی پڑے گا۔

ایسے بہت سے ہمارے دوست یار ہوتے ہیں جو خود کا نقصان کروا لیتے ہیں مگر نہ نہیں کر سکتے۔ نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بندہ کسی دوسرے بندے کے جتنا مرضی کام آ جائے، پر مجال ہے کہ ایک نہ کرنے ہر وہ یہ سمجھ پائے کہ جناب اگلے بندے کی بھی کوئی مجبوری ہو سکتی ہے کہ وہ کام نہیں کر سکا۔ ادھر سے نہ ہوتی ہے ادھر منہ پھولا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ایک کام بولا تھا، اس کی بھی انکاری کر دی۔ پھر یہی انکاری والا رونا اپنے ہر دوست اور رشتہ دار کے سامنے روتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اگلے بندے کا لحاظ اور مروت نہ رکھی جائے، رکھی جائے بالکل رکھی جائے مگر جہاں آپ کو لگے کہ نہیں یار اب بس ہو چکی ہے یا پھر آپ جیسے ہی آفس سے گھر لوٹے تو ساتھ ہی کسی دوست یا رشتہ دار کی فٹیک آ جائے کہ جناب پہلے یہ کریں، آپ کا آرام کرنا جائے بھاڑ میں۔ ایسے لوگوں سے پہلے تو اجتناب کیجیے جو صرف اور صرف کام کروانے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ لیکن اب اگر ان سے واسطہ پڑ ہی گیا ہے تو ان کا ہر کام کرنے کا ٹھیکہ اپنے سر نہ لیں۔ ایمرجنسی والوں کاموں کو چھوڑ کر باقی ان کے تمام کاموں کو نہ بول کر اپنا جیون سکھی کریں۔

اگر تو کام کسی ایسی نوعیت کا ہے کہ وہ خود نہیں کر سکتا یا پھر کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو بات سمجھ آتی ہے کہ بندہ ہی بندے کے کام آتا ہے۔ مگر کچھ دوست اور رشتہ دار اس طاق میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب یہ بندہ اپنے کام سے فری ہو تو اس سے یہ کام کروایا جائے۔ کچھ تو اس بات کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتے کہ اگلا بندہ اس وقت کام پر ہو گا۔ بس جھٹ سے فون اٹھایا اور کال ملا کر فوراً اپنا کام کسی اور کے گلے ڈال دیا۔ اب اگلا بندہ خود خجل ہو جائے گا مگر نہ نہیں کر سکے گا۔

ایسے لوگ اس بندے کی طبیعت کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو نہ نہیں کر سکتا۔ اب چونکہ وہ نہ نہیں کر سکتا، اس کے حلقہ احباب میں موجود لوگ اسے کام پر کام دیے جاتے ہیں۔ پھر ہر آفس میں ایسا بندہ ضرور ہوتا ہے جو اس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ پھر اس سے وہ کام لیا جاتا ہے جیسے اس انسان میں تو جان ہی نہیں۔

اس لیے اپنی طبیعت میں ایک چھوٹا سا بدلاؤ لائیے اور ان کاموں یا فٹیکوں کو نہ کرنا سیکھیے جن کا آپ کو لگے کہ یار یہ تو وہ خود بھی کر سکتا ہے یا پھر یہ کام جان بوجھ کر آپ کے پیٹے ڈالا جا رہا ہے۔ اپنی صحت کے ذمہ دار آپ خود ہی ہیں۔ ہر وقت خود کو کسی اور کے غیر ضروری کاموں کے لیے خود کو ہلکان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

پھر کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو چیز آپ کے پاس اچھی دیکھی اگلے ہی دن ادھار مانگ لی۔ پھر چیز ادھار لے کر اس کا وہ حشر کرتے ہیں کہ دینے والا مہینوں خود کو کوستا رہتا ہے کہ یہ میں نے انھیں کیوں دی۔ ایک دو دفعہ کوئی چیز ادھار مانگ لے تو سمجھ میں آتا ہے کہ بندے کی بعض اوقات مجبوری بھی ہوتی ہے۔ مگر جان بوجھ کر ایک ہی چیز کا بار بار ادھار مانگنا اور پھر ہر بار اس کا وہی حشر کر کے دینا کہاں کی بھلائی ہے جناب۔ ایسے لوگوں کو دو تین مرتبہ چیز کا حشر ہونے کے بعد بھی اگر آپ نہ نہیں کر سکتے تو یہ آپ کی خوبی خامی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اب ”نہ“ کرنا ایسے سیکھنا ہے جیسے ایک آرٹ کو سیکھا جاتا ہے۔ بندہ اور وقت دیکھ کر ”نہ“ کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ ہر وقت ہی بندہ منہ میں ”نہ“ لیے پھرتا رہے۔ بڑے احتیاط کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر اسے استعمال کرنا ہو گا۔ المختصر جن لوگوں کے بارے میں دل سے آواز آتی ہے کہ انھیں اب نہ کرنے کا وقت آ گیا ہے یا نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے، انھیں آپ ایک دفعہ نہ کر کے دیکھئے جیون سپھل نہ ہو گیا تو کہیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments