ایک متحرک زندگی کا شعور۔ مگر کیسے؟


جب اصحاب کہف کی آنکھ کھلی تو زمانہ بدل چکا تھا۔ سماج ایک نئی کروٹ لے چکا تھا۔ ان کی نقدی کھوٹی ہو چکی تھی اور اب ان کی پہچان کا کوئی حوالہ باقی نہیں بچا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی ایسی ہی طویل نیند سونے کی خواہش کرتا ہوں جس کے بعد آنکھ ایک نئے زمانے میں کھلے۔ جہاں تمام تر انسانی المیے دم توڑ چکے ہوں، سانس کے راستے میں حائل سب رکاوٹیں ہٹ چکی ہوں، جینا اتنا دشوار نہ ہو جتنا اب ہے۔ لیکن جس دور نا پرساں میں نیند ہی آنکھوں سے دور رہنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہو ایسے دور میں سونا، گہری نیند سونا اور پھر طویل گہری نیند سونا۔

چہ معنی دارد! مگر فرض کر لیجیے کہ ایسا کوئی معجزہ ہو بھی جائے اور وہ بھی آپ کے اس پیارے دیس پاکستان میں تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی آنکھ کسی بدلے ہوئے زمانے میں کھلے گی۔ میری ذاتی رائے میں تو ایسا کچھ ممکن نہیں۔ آپ چاہیں تو اسے میری بد دلی کہیں یا پھر میری یاسیت پر محمول کریں لیکن مجھے کسی بھی شعبہ زندگی سے کوئی نئی لہر اٹھتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہر طرف ایک ایسا جمود ہے جس میں سے اب باس اٹھنے لگی ہے۔

سب سے خطرناک ہمارا فکری جمود ہے۔ روایات کہنہ کو سینے سے چمٹائے ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ طرز کہن پہ اڑنا زندگی کو تازگی سے محروم کر دیتا ہے۔ دوسروں کی ترقی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنا اور محض دل کی تسلی کے لیے اس ترقی کا سہرا کبھی اپنے آبا کے سر سجانا تو کبھی من گھڑت روایات میں اس کی بنیاد تلاش کرنا در اصل ایک تھکن زدہ، خود سے اور زمانے سے ہارے ہوئے سماج کی نشانی ہے۔

زندگی اور ایک متحرک زندگی کا شعور ہمیں کہاں سے اور کیسے مل سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے شاید ہمیں اپنے سماج کو سوال اٹھانے، سوال سننے اور سوالوں کے جواب تلاش کرنے پر مائل کرنا ہو گا کیوں کہ کسی بھی شے کا حقیقی شعور اس شے کے بیخ و بن پر سوال اٹھائے بغیر ممکن نہیں۔ سوال اٹھانا درحقیقت موجود کے باطن سے ممکنات کی دریافت کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھایا جانا بھی ضروری ہے کہ سوال اٹھانا کسی بھی شے، خیال یا نظریے کی لازماً نفی پر منتج نہیں ہوتا ہاں مگر نفی کا امکان ضرور موجود رہتا وہ بھی صرف ایسی صورت میں جب وہ شے، خیال یا نظریہ باطنی قوت سے محروم ہو۔

زندگی کے جمود کو توڑنے کے لیے میں تاریخ اور روایت کے مکمل انہدام کے حق میں ہرگز نہیں اور نہ ہی اس نظریے کا حامی ہوں کہ مذہب اور مذہبی اعتقادات کو سماج سے بے دخل کر دیا جائے۔ اور ایک نئے سماج کی بنیاد ان کے ملبے سے اٹھائی جائے۔ بل کہ صائب یہ ہے کہ انھیں ایک ایسی متحرک قوت کے طور پر از سر نو متعارف کروایا جائے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کے زوائد کو خود ہی تلف کرتے چلے جائیں۔ بہ فرض محال اگر کوئی سماج، مذہب اور خدا کے بنا چلنے کا فیصلہ کر لے تو اس کے پاس ایسا کچھ ضرور ہونا چاہیے جو مذہب اور خدا کے انخلا سے پیدا ہونے والے خالی پن کا مداوا کر سکے۔ جو لوگ مغرب کی مثال دیتے ہوئے سائنس کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی بات کرتے ہیں وہ شاید اہل مغرب کی داخلی بے چینی سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔

مزید برآں یہ بھی لازم ہے کہ سائبر ورلڈ کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور اس میں واضح تصور حیات و کائنات کے ساتھ داخل ہونے کی تیاری کی جائے۔ ہمارا موجودہ سماجی شعور جس وحشت کا پروردہ ہے اس کے ساتھ ہم ہمیشہ ایک عدم تحفظ کا شکار رہیں گے اور عدم تحفظ کا یہ احساس ہمارے وحشی پن کو کئی گنا بڑھاتا چلا جائے گا۔ دنیا تو دنیا خود ہم بھی اپنے اس وحشی پن کو سہار نہیں سکیں گے۔ اس سے پہلے کہ دنیا ہمیں اپنی بقا کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے ہمارا وجود تلف کرنے کا فیصلہ کر لے۔ ہمیں خود کچھ سخت اور تلخ فیصلے کر لینے چاہئیں بہ صورت دیگر ہم اپنی تمام تر کہنگی اور وحشت سمیت نابود کر دیے جائیں گے۔ اور یاد رکھیے کہ ہمیں نابود کرنے والا وہ خدا بھی ہو سکتا ہے جس پر ہم اور آپ حق ملکیت جتاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments