حضرت پیر سید بابا ثقلین شہنشاہ بخاری (لٹاں والی سرکار )


ہمارے سماج میں ذہنی بیماریوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ایسا بندہ جو کسی حادثہ یا صدمہ کی وجہ سے ہوش و حواس کھو بیٹھے یا درجنوں قسم کی ذہنی بیماریوں میں سے کسی ایک بیماری کا شکار ہو جائے تو ایسے بندے کا علاج کروانے کے لیے کسی سائیکائٹرسٹ کا انتخاب کرنے کی بجائے اسے جھاڑ پھونک کرنے والے درجنوں بابوں کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ اگر ذہنی بیماری شدت پکڑ لے اور مریض دوسروں کو نقصان پہنچانا شروع کر دے تو اسے کسی کمرے میں قید کرنے اور چارپائی کے اوپر رسیوں کے ساتھ باندھنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور کچھ ورثاء تو سڑکوں پر رلنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور اس قسم کے ذہنی مریض ہمیں کہیں نہ کہیں ضرور دکھ جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں ذہنی مریض کی ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے منطقی بنیادوں پر سوچا نہیں جاتا۔ کچھ عرصہ کی جھاڑ پھونک کے بعد اسے ”سائیں بابا“ ڈیکلیئر کر کے سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے اور پھر ایسا بندہ حالات کے رحم و کرم پر اپنی زندگی کے دن پورے کر کے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں کافی عرصہ پہلے ٹی چوک میں ایک ایسے ہی بابا جی اکثر دکھائی دیتے تھے، صرف قمیض پہنے رکھتے اور شلوار بہت کم اکثر ننگے ہی بیٹھے رہتے تھے۔

بڑی بڑی داڑھی، زلفیں اور گندگی میں لت پت اکثر گالیاں ان کی زبان پر ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ گزرنے والے لوگ یا بچے ان پر روڑے بھی برسا دیتے تھے۔ ٹی چوک میں کچھ کاروباری لوگ ترس کھا کر کھانا وغیرہ دے دیتے تھے اور کھانا بھی اسے کسی کاغذ کے ٹکڑے پر روٹی کے اوپر سالن رکھ کر دیتے تھے جسے وہ منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے کھا لیتا تھا۔ زندگی کے دھندوں میں پھنسنے کے بعد وہ بابا جی تقریباً ذہن سے اتر چکے تھے کہ اچانک صبح کی سیر کے دوران پارک کی دیوار پر ایک فلیکس آویزاں پایا جس کا عنوان تھا ”عرس مبارک حضرت پیر سید بابا ثقلین شاہ بخاری عرف لٹاں والی سرکار“ اور نیچے ان کے موجودہ گدی نشین اور اگلے گدی نشین جو موجودہ گدی پر براجمان کے چھوٹے بیٹے ہیں کے نام درج تھے۔

ذہن میں برسوں پہلے والے بابا جی کے چہرے کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ گئی کیونکہ اس فلیکس پر اسی بابا جی کی تصویر بھی موجود تھی جو انتہائی کسمپرسی، بے بسی، لاچارگی اور دماغی توازن صحیح نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے کی ٹھوکریں کھاتا کھاتا دنیا چھوڑ گیا۔ مرنے کے بعد کچھ لوگوں نے اس کا مزار بنا دیا، گدی نشین بن گئے۔ میلے ٹھیلے ہونے لگے اور اب اس بابا جی کے نام پر کمائیاں عروج پانے لگیں اور ایک وقت آئے گا کہ اسی دربار کے گدی نشین ”بزنس ٹائیکون“ بن کر اقتدار والوں کے لئے سیڑھی کا کردار ادا کر کے ایک بزنس امپائر کے مالک بھی بن جائیں گے۔

یاد رہے یہ وہی بابا جی ہیں جنھیں ذہنی توازن کھو دینے کے بعد علاج کروانے کی بجائے سڑکوں پر رلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا اور جن کی زندگی کا کنٹریبیوشن مفلوک الحال ہونے کے بعد گندگی اور غلاظت کے ساتھ گلیوں میں مارا مارا پھرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا مگر مرنے کے بعد ”کاروباری مافیا“ نے ایک ذہنی نڈھال شخص کو بھی کیش کروا کر سید بخاری عرف لٹاں والی سرکار کا درجہ دے کر کاروبار شروع کر دیا۔ سوچتا ہوں کافی لمبا عرصہ کے بعد یہی دربار عالی شان مزار میں تبدیل ہو جائے گا اور اس بابا جی کے متعلق فرسٹ ہینڈ نالج رکھنے والے بندے بھی اپنی قبروں میں مٹی ہو چکے ہوں گے تو اس وقت کے حاضرین اسی بابا جی کے متعلق پتہ نہیں کیا کیا کراماتی کہانیاں گھڑیں گے اور سننے والے اسی بابا جی کی زندگی پر سنی سنائی معلومات کی بنیاد پر لمبی لمبی چھوڑ کر ایک ایسی شخصیت میں بدل ڈالیں گے کہ وہ برصغیر پاک و ہند کا ایک بہت بڑا بزرگ کہلانے لگے گا مگر ان سب قصے کہانیوں کا ان بابا جی کی زندگی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہو گا۔

سب کچھ من گھڑت ہونے کے باوجود لوگ بھروسا کریں گے اور اپنی مرادوں کی خاطر دربار پر حاضری دیں گے اور خاندانی غلک میں تبرک کے طور پر پیسے بھی ڈالیں گے۔ نہ جانے کتنے مزار اس پیمانے پر بنیں ہوں گے، پاکستان اور انڈیا اس حوالہ سے بہت زیادہ خود کفیل ہیں۔ آپ مختلف علاقوں کی سیر کے دوران جی ٹی روڈ پر ڈرائیو کریں تو راستے میں آپ کو چھوٹے چھوٹے ایک کمرہ پر مشتمل دربار دکھائی دیں گے جہاں پر مٹی کے پیالے میں تیل، دیا اور کچھ اگر بتیاں نظر آئیں گی اور ایک بڑا ساغلہ بھی وہاں موجود ہو گا جس میں راہ چلتے لوگ پیسے ڈالتے رہتے ہیں۔

لیکن آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہاں باقاعدہ طور پر کوئی بندہ آپ کو نظر نہیں آئے گا مگر کچھ عرصہ بعد اس غلے میں سے پیسے نکالنے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہو گا وہی بندہ اس سسٹم کا کرتا دھرتا ہو گا۔ انسانی تاریخ کی بس اتنی سی کہانی ہے جس پر اندھا اعتماد کر کے لوگ گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ لکھی ہوئی حقیقت کو منطقی بنیادوں پر پرکھنے کے لیے ان کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہوتا مگر ان بنیادوں پر بڑوں بڑوں کے بزنس چلنے لگتے ہیں۔

یہ پراسراریت کا کلچر ہوتا ہے، انسانی بے بسی کا فائدہ چند ایسے لوگ اٹھانے لگتے ہیں جو معاشرتی نکمے کہلاتے ہیں اور عقیدت کے اس کھیل میں پیروں کی آنے والی سات نسلیں تک بامراد ہو جاتی ہیں۔ سائنس نے اس پراسراریت کے کلچر کو تلپٹ کر دیا ہے آج وجدان اور قلبی واردات کی گرہیں کمزور پڑتی چلی جا رہی ہیں۔ چھٹی حس جتنی بھی مضبوط ہو جائے وہ آپ کی اندرونی کیفیت کی ترجمان کہلائے گی اور وہ مشاہداتی حقائق کی محتاج ہو گی۔

وجدانی علم جتنا بھی فائن ٹیون ہو، وہ موضوعی (سبجیکٹو) ہی کہلائے گا اور دنیا کے اسٹیج پر جلوہ گر ہونے کے لیے اسے ماورائی استعاروں سے نکل کر عقل اور مشاہدہ کی بنیاد پر خود کو منوانا پڑے گا کیونکہ آج گروہی علم کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ آج کا علم ہر انسان کی پہنچ میں چند کلک بٹن کے فاصلہ پر ہے اور گروہی علمی اجارہ داری کی باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments