چولستان، سائبیریا، نیویارک اور چاکلیٹ کافی


کبھی کبھی دل کرتا ہے چولستان روہی کے صحرا میں ایک جھونپڑی بنا کے اکیلا وہاں رہوں۔ میلوں دور تک کوئی نہ ہو۔ سرد ہوا چل رہی ہو۔ چاند بدلی سے نکلتا اور چھپتا ہو۔ کسی پرندے کی آواز رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی سنائی دے جائے۔ Universal Collective Brain کے ساتھ اپنے چھوٹے سے دماغ کو مراقبہ کے ذریعے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کروں۔ آدھی رات کو ہنسی کی جلترنگ سنائی دے۔ ادھر ادھر دیکھوں، کوئی بھی نظر نہ آئے۔ کوئی سیاہ رنگ کا سانپ رینگتا ہوا آئے۔ میں اسے کہوں، ”ناگ آ آ آ! تیرے ساتھ میری کوئی دشمنی نہیں۔ تو اپنا راستہ لے۔“ پھر وہ خاموشی سے چلا جائے۔ رات کے پچھلے پہر دور سے اونٹوں کا قافلہ گزرنے اور گھنٹیوں کی آواز سنائی دے۔

سائبیریا سے آنے والی کونجوں کی ڈار اوپر سے گزرتے ہوئے مجھے دیکھ کے نیچے اتر آئے۔ مجھے اٹھارہ ہزار کلومیٹر کے سفر کے سارے مناظر سنائے اور میرا حال سنے۔ پھر کونجیں مجھے اپنا ساتھی قرار دے کے اپنے ساتھ پرواز کرنے کی بات کریں اور اکبر شیخ اکبر ان کے ساتھ پرواز کر جائے۔ مجھے بہاول پور کے شاہی محلات کبھی اچھے نہیں لگے۔ شاہی محلات دنیا میں جہاں کہیں ہیں مجھے ان میں کشش نہیں ہوتی۔

سہ پہر کو پارک میں واک کرنے گیا۔ ایک ٹھیلا پہ ریوڑیاں مونگ پھلیاں سجی ہوئی تھیں۔ تل شکری کھانے کو دل کیا۔ واک کرتے ہوئے تل شکری کھانا اچھا لگا۔ پارک کے پرندے مجھے پہچانتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے وہ مجھے دیکھ کے چہچہاتے ہوئے درخت سے نیچے اتر کے واک ٹریک پہ بیٹھ جاتے ہیں۔ میں ان کے بالکل پاس سے گزرتا ہوں لیکن وہ اڑتے نہیں، بیٹھے رہتے ہیں۔ پارک میں ایک بار میرے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ میں واک کر رہا تھا، ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا اور اپنی چونچ سے ایک چھوٹا سا بالکل نیا سکہ میرے سامنے گرا دیا۔ دس پیسے کا یا پچیس پیسے کا سکہ تھا۔ میں نے وہ اٹھا کے اپنے بٹوا کے ایک خانے میں محفوظ کر لیا۔ اگلے سال بٹوا تبدیل کیا۔ وہ سکہ ڈھونڈا، وہ مجھے بٹوے سے نہ ملا، حالانکہ وہ بٹوے کے ایسے خانہ میں رکھا تھا جو خفیہ اور محفوظ ہوتا ہے۔

کافی پینے کو دل کیا۔ واک کے بعد باہر فوڈ سٹریٹ سے ٹھنڈ میں بیٹھ کے گرم چاکلیٹ کافی پینا اچھا لگا۔ مغرب کے بعد چاچا منا کھانا لایا۔ بھوک بہت لگ رہی تھی۔ مکھن کی خوشبو بکھیرتی دال گرم گرم چپاتیوں کے ساتھ کھانا اچھا لگا۔ اخبار پڑھنے بیٹھا تو باہر سے آواز آئی۔ گرم انڈے ے ے ے۔ دل کیا ابلے ہوئے گرم انڈے کھاؤں۔ 25 روپے کا ایک۔ بھائی! اتنے مہنگے؟ ”صاحب، انڈے مہنگے ہو گئے ہیں“ ۔ بہت کچھ مہنگا ہو گیا ہے۔ خلوص اور چاہتیں بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔

سونے سے پہلے تھوڑا انٹر نیٹ کا بھی وزٹ کر لوں۔ اب تو انسانوں کی انسانوں سے زیادہ انٹرنیٹ سے ہی دوستی ہے۔ ایک ٹریول چینل نے نیویارک کے سنٹرل پارک کے اردگرد کے علاقے پہ بنائی جانے والی ڈاکیومنٹری اپلوڈ کی تھی۔ یہ جنت تھی یا نیویارک تھا۔ اتنا خوبصورت، اتنی صفائی، اتنی نفاست۔ Amazing and Ultimate Architecture۔ کمال تھا۔ جس بات نے مجھے چونکا دیا وہ یہ کہ وہاں کئی جگہوں پہ سڑک کے متوازی فٹ پاتھ کے دوسرے کنارے پہ ٹیوب ویل جیسے بڑے دہانے والا پائپ زمین سے تھوڑا باہر نکلا ہوا تھا جس پہ لکھا ہوا تھا ”Fire Department Connection“ ۔

اس سے پانی رس کے باہر نہیں آ رہا تھا کیوں کہ یہ اوپر سے بند تھا۔ اب جب بھی فائر بریگیڈ والوں کو ایمرجنسی میں ضرورت ہو وہ اس کا ڈھکن اپنے اوزاروں سے کھول کے پانی استعمال کریں۔ ہمارے لاہور، کراچی میں اونچی عمارتوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ لوگ اندر ہی جل کے مر جاتے ہیں۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں دور سے پانی لانے میں ہی وقت ضائع کر دیتی ہیں۔ کیا ارباب اقتدار نیویارک کے اس ماڈل کو میرے پیارے پاکستان میں اپنا نہیں سکتے بلکہ میں یہ تجویز جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کو دیتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments