حضرت باچا خان کی برسی اور باچا خانی


باچا خانی پکار دہ ( باچا خانی ناگزیر ہے ) آج کل عوامی نیشنل پارٹی سے جڑے ہوئے ہر شخص کی زبان پر ایک نعرہ مستانہ محو گردش ہے اور وہ ہے باچا خانی پکار دہ۔ باچا خانی اور عدم تشدد دونوں ایک سکے کے دو رخ یا ایک ہی ٹہنی کے دو پھول ہیں۔ باچا خانی عدم تشدد کے بغیر نامکمل ہے اور عدم تشدد باچا خانی کے بغیر ادھورا ہے۔ جو شخص باچا خانی کو جانتا ہو وہ عدم تشدد سے واقف ہو گا اور جو بندہ عدم تشدد سے واقف ہو گا وہ باچا خانی کو جانتا ہو گا۔

باچا خانی یا عدم تشدد اب ایک فلسفے، ایک وژن اور ایک نظریے کا روپ دھار چکا ہے۔ جو بندہ یا جو مقرر باچا خان پر لب کشائی کرے اور وہ عدم تشدد کی بات پر چپ سادھ لیں وہ عدم تشدد کے فلسفے کی جانکاری ہی نہیں رکھتا اور جو لکھاری عدم تشدد پر قلم اٹھائے اور وہ قرطاس ابیض پر حضرت باچا خان علیہ رحمت کے نام کے ہجے نہ لکھیں وہ سرے سے فخر افغان کو نہیں جانتا۔ باچا خان کی سینتیس سالہ قیدوبند کی تاریخ میں ان کے زمرے میں ایک گملا یا کسی سرکاری املاک کے ٹوٹنے یا بے جا ہونے کی شکایت تک نہیں جبکہ ان پر اور ان کے باچا خانی ساتھیوں پر وہ، وہ مظالم اور خون کی ہولی کھیلی گئی کہ تاریخ اب بھی ان لمحات کے شاہدی پر شرمندہ ہے۔

کیا بابڑہ کا واقعہ ذہنوں سے محو ہونے کا سانحہ ہے؟ جسے باچا خانی پشتونوں کے کربلا سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس واقعے میں چھ سو سے زائد افراد کو شہید کیا گیا تھا اور پھر اس وقت کی سرکار نے ”پر“ شہید جو گولی استعمال ہوئی اس کے پیسے بھی غمزدہ اور سوگوار خاندانوں سے وصول کیے تھے۔ لیکن ان سب کارستانیوں کے باوجود باچا خان نے عام لوگوں کو تشدد کے اقدام پر نہ اکسایا اور نہ ابھارا، گو کہ وہ اس واقعے کا سہارا لے کر جلاؤ گراؤ یا سرکار کے لئے بے چینی پیدا کر سکتے تھے لیکن وہ عدم تشدد کے عملی نمونہ تھے وہ عدم تشدد کے صرف کہنے کی حد تک پرچارکھ نہیں تھے۔

دور کیوں جائے جب بشیر بلور شہید ہوئے یا پھر ہارون بلور شہید ہوئے یا میاں افتخار کے فرزند ارجمند شہید ہوتے ہیں اور اس طرح باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوتا ہے یا بارہ مئی کے سانحے میں اے۔ این پی کے کئی کارکن شہید ہوتے ہیں تو اس پر اے۔ این۔ پی کی جانب سے کسی بھی قسم کا جھلاؤ گراؤ یا راستے بند کرنے یا دھرنا دینے کا ردعمل نہیں اتا ہے کیونکہ یہ باچا خان کی باچا خانی اور عدم تشدد کے فلسفے کی دین ہے۔ باچا خان تو اپنے سرکردگی میں قائم ہونے والے آزاد مدرسہ ( سکولوں ) میں عدم تشدد کی مثال بچوں کے نہ مارنے یا جسمانی سزا نہ دینے جیسے اسان اور سلیس مثالوں سے دیا کرتے تھے جب یہ بات سرکاری سکولوں میں اساتذہ اپنی بات ڈنڈے کے زور پر سمجھاتے تھے یا پڑھائی کو ڈنڈے کے زور پر بچوں پر جبراً یاد کیا کرتے تھے اور یہ بات باچا خان اس وقت یا زمانے میں کیا کرتے تھے کہ انگلستان میں بھی بچوں پر تشدد نہ کرنے کے قوانین اتنے فعال نہیں تھے۔

باچاخان آج سے ایک صدی پہلے جسمانی اور گھریلو تشدد کے خلاف تھے جب ترقی یافتہ ممالک بھی ان قوانین پر اتنے لیس نہیں تھے یا پھر ہمارے ملک میں اب جسمانی اور گھریلو تشدد کے قوانین اسمبلیوں سے پاس کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں میرا ایک عام مشاہدہ ہے کی جب کبھی کسی کے سامنے اپ باچا خان کا نام لیتے ہیں تو وہ پہلے اپ کو اوپر نیچے گھورنا شروع کر دیتا ہے اور جب ان کے سامنے باچا خانی یا فلسفہ عدم تشدد پہ بولنے کی جسارت کرتے ہو تو فٹ سے اس کو روکنے کے لئے بیسیوں رکاوٹیں لانے کی کوشش کرے گا۔

حالانکہ بے چارہ نہ ٹھیک طریقے سے باچا خان کو جانتا ہو گا اور نہ باچا خانی یا فلسفہ عدم تشدد کو۔ حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔ یا یہ کہ غصہ حرام ہے، یا یہ کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یا یہ کہ قرآن میں ہے کہ زمین والے پر تم رحم کرو اسمان والا تم پر رحم کرے گا اب اگر کسی کو یہ سمجھا یا جائے کہ عدم تشدد اس احادیث اور آیت مبارکہ کا عملی نمونہ ہے تو کیا سمجھنے میں کوئی دقت ہو سکتی ہے بالکل بھی نہیں۔ یا اگر ہم کسی کو یہ کہیں کہ باچا خانی یا فلسفہ عدم تشدد رحمان بابا کے اس شعر کی تشریح ہے

کر د گلو کڑا چے سیمہ دے گلزار شی
ازغی مہ کرا پہ پخو کے بہ دے خار شی
پھولوں کو بویا کر تاکہ اپ کے اردگرد ماحول گل و گلزار بن جائے
کانٹے مت بویا کر کہیں اپ کے اپنے پاؤں میں چبھ نہ جائے
تو یہ بے جا نہیں بلکہ بالکل بجا ہو گا۔

اس طرح اگر ہم کسی کو اس دلیل سے سمجھائے کہ باچا خانی اور فلسفہ عدم تشدد ایک پھل دار اور سایہ دار درخت کی مانند ہے۔ خوشحال خان خٹک کے شعر

پہ باردارہ ونہ تل وریگی کانڑی
ورت گورہ چے باردارہ ونہ سہ کہ

باردار درخت پر روز سنگ باری ہوتی ہے لیکن دیکھ! جواب میں وہ باردار یا پھلدار درخت سنگ باری کرنے والے کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتا ہے کے مصداق ایک سماجی عمل کا نام ہے۔ باچا خانی یا فلسفہ عدم تشدد تو راستے سے پتھر ہٹانے کے کار خیر، کسی محتاج کو سڑک پار کرنے، کسی محتاج اور بے سہارے کو کھانا کھلانے اور سر چپانے کا نام ہیں۔ باچا خانی اور عدم تشدد جسمانی اور روحانی طور پر خود اور دوسروں کو خوش رکھنے کا نام ہے۔

باچا خانی اور عدم تشدد کا فلسفہ تو بیمار کی بیمار پرسی کا نام ہے۔ باچا خانی اور عدم تشدد کا فلسفہ تو جاہل کو علم دینے اور عالم کو صبر سکھانے کا نام ہے۔ باچا خانی تو عدم برداشتوں کو برداشت کا درس دینے کا نام ہے۔ باچا خانی تو ایک نوالہ دو اشخاص پر بانٹنے کے فیاضی اور وسیع القلبی کا وتیرہ ہے۔ باچا خانی تو جیو اور جینے دو کے فلسفے کا نمونہ ہے۔ باچا خانی تو دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے فلسفے جیسے روشن خیال عمل کا نام اور اکرام ہے۔

باچا خانی تو احتساب کے عمل کو تیز کرنے اور بلا امتیاز اگے بڑھانے کی کارروائی کا جہد مسلسل ہے۔ باچا خانی تو مہنگائی کو کم کرنے کے عمل کا نام ہے۔ باچا خانی تو عوام کو سچ بتانے اور سچ سکھانے کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ باچا خانی تو اپنے وسائل پر اپنے اختیار کا مہر ثبت کرنے کا تحریری اقرار نامہ ہے۔ باچا خانی تو اپنے چادر جتنے پاؤں پھیلانے اور میانہ روی کا افادی عمل ہے۔ باچا خانی تو دوسروں پر قربان ہونے کے جذبے کا پیکر دید ہے۔

باچا خانی تو کسی بھی متشدد کے ہاتھ روکنے اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا بیش بہا بہادری ہے۔ باچا خانی اسلحہ رکھنے اور قلم اٹھانے کے انقلاب کا اسم بامسمی نعرہ و عمل ہے۔ باچا خانی تو عورتوں کو وراثت میں حق دلانے، ان کو تعلیم دلانے اور ان پر مردوں کے ہاتھ نہ اٹھانے کا سیدھا اور سادہ رستہ ہے۔ باچا خانی سادہ خوراک کھانے اور سادہ پوشاک پہننے کا سادہ وفار زیست ہے۔ باچا خانی خان و جاگیردار ہوتے ہوئے عام لوگوں کے درمیاں زندگی کے روز و شب گزارنے اور ان کو اوپر لانے کے مجاہدے کا نام ہے۔

یعنی ہر وہ سیاسی اور سماجی عمل جس سے انسانی جسم یا انسانی سوچ کو زچ پہنچائی جا رہی ہو وہ باچا خانی کے عدم تشدد کے فلسفے کے خلاف ہے۔ کیا دنیا میں اس سے اسان اور مثبت کوئی دوسرا نعرہ جو فلسفہ بن چکا ہو کہیں دنیا میں کسی سیاسی شخص کے کریڈٹ پر ہے جس کو روز ہزاروں لوگ ببانگ دہل الاپتے ہوں کہ ”باچا خانی پکار دہ۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments