لاریب! مرد بہت ظالم ہے


\"\"کزن نے دوسری شادی کرنا چاہی تو سبھی نے اس کی مخالفت کی؛ حتا کہ اُس کے سگے بھائیوں نے کہا، ”عقل نوں ہتھ پا۔“ موصوف مجھ سے بڑے ہیں، میں نے پوچھا، ”بھائی جان مسئلہ کیا ہے؟ بھابھی تو بہت اچھی ہیں، ہر ایک کا خیال رکھتی ہیں؛ جب جب ہم آپ کے گھر آئے، کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔“

وہ تلملائے، ”کس کو شکایت نہ ہوئی؟“

”ہمیں۔“

اُنھوں نے نتھنے پھلائے، گویا میں اُن کا کزن نہ ہوتا، تو ابھی زمین تلے گاڑ کر اگلی گلی کو ہوتے۔ کہنے لگے، ”بھائی، شکایت مجھے ہے۔ گزشتہ سات آٹھ برسوں سے زوجہ محترمہ میرے ساتھ نہیں، ہمارے بیٹے کے ساتھ سوتی ہیں۔“

میں نے سادگی سے سوال کِیا، کہ ”اس میں کیا برائی ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ سوئیں تو آپ کو شکایت کیسی؟“

کزن کا ایک دُکھڑا یہ بھی تھا، کہ، ”تمھاری بھابھی کہتی ہیں، مجھے زندگی اپنے طریقے سے گزارنے دو، میرے کاموں، میرے فیصلوں میں مداخلت نہ کرو۔۔۔ میں اُن سے کہتا ہوں، کہ جب زندگی تم نے اپنے انداز میں گزارنی ہے، تو تمھاری اُس زندگی کی قیمت میں کیوں بھروں؟“

میرے اس کزن کو کچھ جغادری کزنوں نے سمجھایا، کہ جو کرنا ہے، شادی کیے بہ غیر کر لو، لیکن شادی مت کرنا؛ شادی نِرا عذاب ہے۔ صائب مشورہ تھا، لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا۔

معاملہ برادری کا تھا، تو بھابھی سے جا ملا۔ اُنھوں نے تسبیح کے دانے گھماتے گِلہ کِیا، ”دیکھو ناں، میں نے اکیس بائیس سال اُن کے ساتھ گزارے، آخر یہ صِلہ دِیا، کہ اب دوسری شادی کی بات لے آئے؟“ میں نے کہا، ”بھابھی، ابھی آپ ظہر کی نماز ادا کر کے اُٹھی ہیں، خدا کے نام کی مالا جپ رہی ہیں، تو خدا نے انھیں دوسری کی اجازت دے رکھی ہے، تو کہیے یہ کون سا خدا ہے، جس کے دیے ہوئے اختیار کو تسلیم نہیں کر رہیں! اچھا یہ بتایے، کیا وہ گھر کے اخراجات پورے پورے ادا کرتے رہے؟ آپ کی کو مالی طور پر کوئی تنگی ہونے دی؟“ اُن کا کہنا تھا، کہ گھر کے کرائے سے بچوں کی اسکول فیس تک کوئی رکاوٹ نہیں۔ اور تو اور دوسرے شہر میں جو گھر خریدا ہے، اُس کی رجسٹری بھی بھابھی کے نام ہے۔ لب لباب یہ تھا، کہ خاتون اپنی جنسی عمر پوری کرچکی تھیں، مباشرت سے بے زار تھیں، سو اُن کے شوہر نے دوسری شادی کر کے دم لیا۔ دوسری بیوی کے الگ گھر میں رکھا ہے، پہلی بیوی نے بول چال بند کردی ہے اور یہ بھی، کہ اولاد کو منع کر دیا ہے، باپ سے ہم کلام نہ ہوں۔ وہ ظالم مرد اس کے باوجود دونوں گھروں کے اخراجات اٹھاتا ہے۔ رہی شریکوں کی بات، تو خاندان بھر نے صاف صاف کہ دِیا، تمھاری پہلی بیوی ہی ہماری بھابھی ہے، بہو ہے؛ دوسری کو ہم وہ عزت نہ دیں گے، جو پہلی کی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

لیجیے صاحب، یہ مردوے ہیں ناں؛ یہ دوسری شادی کا تو بہانہ تراشتے ہیں۔ ایک عام مرد کا شکوہ ہے، کہ بیوی ان کے بچوں کی ماں بنتے ہی، بس ماں بن کر رہ جاتی ہے۔ تو کیا یہ عورتیں سیکس مشینیں ہیں، جو مردوں کی ضرورت پوری کرتی رہیں؟ جہاں تک مرد کا تعلق ہے، تو اُسے ہر طرح سے عورت کا خیال رکھنا چاہیے۔ عمدہ لباس فراہم کرنا چاہیے، اچھا کھانا دینا چاہیے، عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچانا چاہیے۔ آخر وہ ان کے بچوں کی ماں ہے، ان کے لیے اپنا راج پاٹ چھوڑ کر آ جاتی ہے۔ بہن بھائیوں سے جدائی کا صدمہ سہتی ہے، تو عورت تو بے چاری ہوئی، اور پھر مذہب بھی یہی سکھاتا ہے، کہ زوجہ کے نان نفقے میں کمی نہ آنے دو، مردوں کو خدا کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، سارا مذہب چار شادیوں ہی میں تو نہیں ناں۔ مرد کو بہت ہی آگ لگی ہے، تو اپنا آپریشن کروا لے۔ ہیں جی؟

ان کا احوال جانیے؛ یہ میری ایک اور کزن ہیں۔ ان کے شوہر انگلینڈ میں ہوتے ہیں۔ موصوفہ کی ماں نے شادی کے بعد بھی انھیں اپنے ہی گھر میں ٹھہرایا ہوا ہے۔ عرض کیا کہ یہ اپنے سسرال میں کیوں نہیں رہتیں؟ کہا گیا کہ ابھی ان کا انگلستان کا ویزا نہیں لگا، پروسیس میں ہے، اس لیے یہ یہاں ہیں۔ پوچھا گیا کہ تب تک یہ شوہر کے ماں باپ کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں؟ جواب تھا، کہ ”یہ کوئی اُن کی ملازمہ ہیں، جو وہاں جا بسیں؟“ ماجرا یہ ہے، کہ میری یہ کزن ماں باپ کے گھر میں سبھی گھریلو کام نپٹاتی ہیں؛ دِل تو چاہا، پوچھوں؛ ”یہ یہاں جو کام کرتی ہے، کیا آپ کی ملازمہ ہے؟“ نہ پوچھا گیا۔ کزن کے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی، اب داماد صاحب پر مزید دباو ڈالے گئے، یہاں تک کہ دیا گیا، ”یہ یا برطانیہ جائے گی، یا طلاق دے دو۔“ بتایا جاتا ہے، کہ حوا ازل سے، آدم کو اس کی اولاد کے نام پر بلیک میل کرتی آئی ہے۔ یہ شیطان ایسا نکلا، کہ اس نے طلاق کے کاغذات بھجوا دیے۔ اب مطلقہ کی ماں ہر جگہ کہتی پھر رہی ہیں، کہ ان کے ساتھ دھوکا ہو گیا، اور یہ کہ میری بیٹی کی ساس بہت ظالم تھی۔ اس کا بیٹا، ماں کی ہر بات مانتا آیا، اسی کے کہنے پر طلاق دے دی۔ اس پر ستم یہ کہ ان کا اپنا بیٹا سعودی عرب میں ہے، ان کی بہو پاکستانی نژاد جرمن ہیں؛ وہ چاہتی ہیں، شوہر کو جرمنی لے جائیں، اور ہماری چچی جان بضد ہیں کہ اُن کا بیٹا سعودی عرب سے باہر جائے گا، تو پاکستان ہی آئے گا، نیز یہ کہ ان کی بہو پاکستان میں آ کر رہے، ہماری خدمت کرے۔ ستم ملاحظہ ہو، ان کا بیٹا والدین کو رقم تو بھجواتا ہے، لیکن ابھی اتنا تابع فرمان نہیں ہوا، کہ ان کے کہے سے ان کی بہو کو طلاق دے۔ بیٹا سعودی عرب میں ہے، کہ ماں باپ کی اجازت نہیں جرمنی جائے؛ بہو جرمنی میں رہتی ہے، اور یہ پاکستان میں؛ زمانے کے بھی کیا کیا دُکھ ہیں۔

مردوے ہیں ہی ایسے، یہ شریک حیات نہیں، ملازمہ بیاہ کر لانا چاہتے ہیں۔ اپنے والدین کی خدمت کے لیے ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتے؟ رہی عورتوں کے ماں باپ کی خیر خبر لینا، تو یہ مردوں کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ وہ بیٹی دیتے ہیں؛ اپنے جگر کا ٹکڑا؛ تو اتنا تو بنتا ہے، کہ ان کی ہر طور دیکھ ریکھ کی جائے۔ مذہب بھی واضح الفاظ میں کہتا ہے، کہ شوہر کے ماں باپ کی خدمت کرنا، بیوی کا فرض نہیں ہے۔ اپنے والدین کی خدمت بیٹا خود کرے۔ یہ بھی تو ہے ناں، کہ بیٹی کو اپنے والدین کی خدمت سے فرصت کب ملتی ہے۔ مذہب یہ بھی کہتا ہے، کہ عورت دودھ پلائی کی قیمت وصول کرسکتی ہے۔ مذہب تو عورت کو بہت سی آزادیاں دیتا ہے؛ سارے کا سارا مذہب مرد کی چار شادیوں ہی میں تو نہیں ناں؛ چار شادیاں تو تب کرے جب انصاف کر سکے، اور کہا گیا ہے، تم ایسا نہ کرسکو گے۔ ہیں جی!

رشتوں کو ”مِلکیت“ یا property بنا لینا؛ قبضہ جما لینا۔ یہ بھی تو ہمارا ایک غم ہے۔ لاریب! مرد بہت ظالم ہے

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments