دھوکہ ہی دھوکہ – ایک دلچسپ کہانی


ہر بار ٹرک کی بتی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بتی کی مدح سرائی کے لیے کہ عوام یہ چورن خرید لیں کچھ لوگ سر پر ہاتھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے قصیدہ گوئی کر رہے ہوتے ہیں۔ صدارتی نظام بھی ٹرک کی ایک ایسی ہی بتی ہی ہی کہ جس کی آڑ میں تن تنہا بیوقوفوں کا قصبہ قائم کر کے اس پر تنہا حکومت کرنے کا خواب بنا جا رہا ہے چاہے اس کی آڑ میں زمین خون سے رنگین ہو جائے یا ملک پارہ پارہ کر دیا جائے بس اپنی دھن میں مگن، ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم ایسی کسی بھی کیفیت سے وطن عزیز کو محفوظ رکھیں۔

ایک حکایت ہے اور بڑی دلچسپ ہے کے ایک قصبے میں ایک دھوکے باز شخص رہا کرتا تھا اس نے ایک دن اپنے گدھے کے منہ میں اشرفیاں کچھ ڈال دیں اور اس کا کپڑے سے بند کر دیا پھر اس کو فروخت کرنے کی غرض سے بازار لے گیا۔ بازار جاتے ہی اس نے کپڑے کا منہ کھول دیا اشرفیاں زمین پر گر گئی تو سب چوکنے ہو گئے کہ یہ کیا ہے۔ وہ بولا کے بھائیوں میں اس سے بہت تنگ ہوں جب میں پریشان ہوتا ہوں تو یہ منہ سے اشرفیاں نکالنے لگتا ہے اب تو گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں رہی کوئی اس کو خرید لو۔

منہ سے سونے کی اشرفی نکلنے کا سن کر لوگوں کے منہ میں پانی بھر آیا ایک سے بڑھ کر ایک دام لگا۔ گدھا بک گیا۔ جس نے خریدا تو وہ پریشان ہونے کی اداکاری کرنے لگا کہ گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکلیں۔ اشرفیاں کیا نکلتی وہ سچ میں ہی پریشان ہو گیا جب پھر بھی کچھ نہ ہوا تو سمجھ گیا کہ دھوکا ہوا ہے۔ قصبے والوں کو ساتھ لے کر وہ دھوکے باز کے گھر پہنچ گیا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کی بیوی سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے وہ بولی کے قریب کے گاؤں میں گیا ہوا ہے۔

تو کب واپس آئے گا؟ وہ بولی پریشان مت ہو میں اپنے کتے کو بھیجتی ہوں وہ واپس بلا لائے گا۔ لوگ حیران ہو گئے اس نے کہا کہ یہ لو کتا بھیج دیا۔ دھوکہ باز وہیں پاس ہی چھپا ہوا تھا اور بی بی کو سب سمجھا کر گیا تھا خود کتا پکڑا اور گھر واپس آ گیا۔ لوگ گدھے کی بات کو بھول کر کتے کے حوالے سے اچنبھے میں پڑ گئے۔ وہ بولا یہ تو روز کی بات ہے کہ یہ کتا مجھے بلاتا ہے۔ اب کتے کی دھوم ہو گئی لوگ دھوکہ باز سے کتا خریدنے کے لیے بے چین ہو گئے وہ کچھ بناوٹی پس و پیش کرنے لگا اور پھر سونے کے بھاؤ بھیج دیا اب جس نے کتا خریدا تھا اس نے اپنے غلام کو کہیں بھیجا تا کہ کتے کے ذریعے اس کو بلانے کا کام کر سکے، کتے نے غلام کو کیا بلانا تھا کتا بھی بھاگ گیا اور غلام بھی مڑ کر واپس نہ آیا۔

قصبے والے سخت غصے میں آ گئے اور دھوکے باز کے گھر کا گھیراؤ کر لیا وہ دوبارہ گھر سے غائب تھا جب واپس آیا تو بیوی سے پوچھا کہ ان قصبے والوں کی خاطر مدارات کی وہ بولی کے تمہیں برا بھلا کہہ رہے تھے میں کیوں کرتی ہو؟ وہ بولا کہ تجھے مہمانوں کی قدر نہیں اور خنجر نکالا، بیوی کو گھونپ دیا وہ لہو لہان ہو گئی اور مر گئی۔ قصبے والے پہلے قصے کو بھول کر اس کو برا بھلا کہنے لگے وہ بولا پریشان نہ ہو یہ ہمارے لئے معمول کی بات ہے دیوار پر ٹنگا ایک سینگ اٹھایا اور اس کو بیوی کے پاس لے کر آیا وہ زندہ ہو گئی قصبے والے حیران رہ گئے۔

وہ بولا کہ یہ طلسمی سینگ ہے جب چاہو بیوی کو مار دو اور جب غصہ کافور ہو جائے تو اس سے زندہ کرلو۔ منہ مانگی قیمت میں سینگ بک گیا۔ حالاں کہ اس نے کیا یہ تھا کہ بیوی کے پیٹ پر خون کی تھیلی باندھ دی تھی اور خنجر میں ایک بٹن تھا کہ جو خنجر کے پھل کو چھپا لیتا تھا خون کی تھیلی پھاڑ دی اور ڈرامہ رچا دیا جس نے خنجر خریدا تھا وہ گھر گیا بیوی سے لڑائی ہوئی اور خنجر اس کے اندر پیوست کر دیا وہ غریب مر گئی جب غصہ اتر گیا تو سینگ سے بیوی کو زندہ کرنے کی کوشش کرنے لگا وہ کیا زندہ ہوتی؟

اب سب قصبے والے اس کے گھر گئے اور اس کی ایک نا سنی اور اس کو بوری میں بند کر دیا کہ اس کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ سمندر دور تھا راستے میں یہ سستانے کے لیے رک گئے اور سو گئے اور بوری کو تھوڑی دور رکھ دیا گیا۔ وہ بوری میں بند بھوک سے چیخ پکار کر رہا تھا کہ وہاں سے ایک چرواہا گزرا پوری کی آواز سنی تو بوری کو کھول دیا اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟ وہ بولا کہ میرے رشتہ دار شہزادی سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں مگر میں نہیں کرنا چاہتا اور اپنی چچا زاد سے کرنا چاہتا ہوں اگر تم اس بوری میں بند ہو جاؤ تو تم کو لے جائیں گے اور پھر تمہاری شادی شہزادی سے کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ ہو گا وہ بیوقوف بن گیا اور یہ اس کی بھیڑ بکریاں لے کر چلتا بنا۔ اگلے دن قصبے والے حیران رہ گئے جب اس کو گھر میں دیکھا اور ساتھ مال مویشی بھی موجود تھے

وہ بولا کہ سمندر کے نیچے جل پریوں کے محل ہیں ان میں سے ان کی ایک شہزادی مجھے ساتھ لے گئی اور مجھ سے شادی کرنے اور محل میں رہنے کی دعوت دی۔ میں نے انکار کر دیا مگر پھر بھی اس نے واپس چلتے ہوئے میرے ساتھ یہ ریوڑ کر دیا۔ سمندر میں اتنی جل پریاں ہیں اور ہماری منتظر ہیں کہ سارے قصبے والوں سے بھی زیادہ ہیں۔ کسی نے ان کے محلوں میں رہنا ہے سب تیار ہو گئے وہ بولا کہ کل سمندر پر آجانا اور ساتھ بوری اور رسی لیتے آنا اور ایک دوسرے کو باندھنے میں میری مدد کر نا۔ اگلے دن جل پریوں کے ساتھ محلوں میں رہنے کی خواہش میں کوئی ایک بھی گھر میں نہ تھا اور خود سے بوری میں بنتے اور سمندر برد ہوتے چلے گئے جب آخری کو بھی سمندر میں پھینک دیا تو اس وقت دھوکے باز بیوقوفوں کے قصبے کا، ان کی دولت کا تن تنہا مالک بن چکا تھا۔

چار بار وطن عزیز عزیز کے ساتھ بھی دھوکا ہو چکا ہے وہ چار ادوار صدارتی نظام کی بھی آمرانہ شکل نہیں تھے تو اور کیا تھے؟ اور ان چار ادوار میں ما سوائے عوام کو ایک کے بعد ایک دھوکہ دینے کے اور کیا دیا گیا۔ صنعتی انقلاب، ایماندار آمریت، مذہب کا سیاسی استعمال اور پھر روشن خیالی کے نام پر معاشرے کو مزید کمزور کرنے کے اور کیا ہوا؟ اور اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس بار دھوکا ریاست مدینہ کے نام پر دیا جا رہا ہے کہ پارلیمانی نظام سے نہیں بلکہ صدارتی نظام سے یہ منزل حاصل ہوگی۔ حالانکہ جب اور تجربات کرلئے اور ناکام ہو گئے تو ایک بار حقیقی آئینی حکمرانی بھی قائم کر کے دیکھ لو ممکن ہے کہ دکھوں کا مداوا ہو سکے اور یہی راستہ بھی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments