سانحہ مری: واہ عثمان بزدار واہ


7 اور 8 جنوری 2022 ء کی درمیانی رات مری آنے والے ”سیاحوں“ کے لئے قیامت کی رات تھی۔ محکمہ موسمیات کی وارننگ کی پرواہ کیے بغیر دو اڑھائی لاکھ سیاح مری اور گرد و نواح میں پہنچ گئے کسی کے وہم و گماں بھی نہ تھا کہ وہ برفباری میں پھنس جائے گا۔ لہذا سیاح برفباری انجوائے کرتے اور ”سیلفیاں“ بناتے مری سڑکوں پر گھوم پھر رہے تھے کہ آناً فاناً برفانی طوفان میں پھنس گئے جس سے 23 سے افراد اپنی گاڑیوں میں ہی جان کی بازی ہار گئے انتقال کرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد بھی شامل ہیں۔

برفباری کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک صرف مری کی بڑی شاہراہوں کو ہی کلیئر کیا جا سکا ہے جب کہ دیگر سڑکوں کو کلیئر کرنے کا کام تاحال جاری ہے۔ ابھی کچھ لوگوں کی گاڑیاں برف میں پھنسی ہوئی ہیں۔ سانحۂ مری کے بعد حکومت ”دفاعی“ پوزیشن میں چلی گئی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے گھڑیال اور دیگر علاقوں کا دورہ کرنے اور برفباری سے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لینے کے بعد ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی 5 رکنی انکوائری کمیٹی قائم کر دی جسے ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی ”آؤ دیکھا نہ تاؤ“ 7 روز میں اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کردی جس میں تمام متعلقہ محکموں کی غفلت ثابت ہو گئی اور یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ افسران واٹس ایپ پر چلتے رہے اور صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پائے، صورتحال کو سنجیدہ لیا اور نہ ہی کسی پلان پر عمل کیا جبکہ کئی افسران نے واٹس ایپ میسج بھی تاخیر سے دیکھے۔

رپورٹ میں پوری انتظامیہ کو ہی سانحۂ مری کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا اس طرح ”آٹے کے ساتھ گھن“ بھی پس گیا اے سی مری، سی پی او اور سی ٹی او جو برفباری کے دوران ڈیوٹی پر موجود تھے۔ کو بھی ”غفلت“ کا مرتکب قرار دے دیا گیا اس کمیٹی نے شروع دن سے ہی تحقیقات کا رخ انتظامی افسران کی طرف کر دیا تھا۔ ان افسران کی بھی ایک نہ سنی جو برفباری کے دوران ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔ رپورٹ میں کمشنر و ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، اسسٹنٹ کمشنر مری کو غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے سی پی او راولپنڈی، سی ٹی او راولپنڈی، ڈی ایس پی ٹریفک اور اے ایس پی مری کو عہدے سے ہٹا کر انضباطی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ کمشنر راولپنڈی کو عہدے سے ہٹا کر معطل کرنے کی سفارش کی گئی ہے جب کہ تمام افسران کو معطل کر کے ان کے خلاف انضباطی کارروائی کا بھی حکم دے دیا ہے۔ اے سی مری کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے جب کہ ڈویژنل فاریسٹ افسر مری، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر مری، انچارج مری ریسکیو 1122 اور ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے پنجاب کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سی پی او، سی ٹی او بھی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے جبکہ محکمہ جنگلات اور ریسکیو 1122 کا مقامی آفس بھی ڈلیور نہ کر سکا اور ہائی وے محکمہ بھی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام رہا اس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب نے انتظامی افسران کے خلاف کارروائی کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے اور سارا نزلہ ماتحت افسران پر گرا کر حکومت پنجاب کی نا اہلی کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔

7جنوری 2022 کو 16 گھنٹے کے دوران 4 فٹ برف پڑی 3 جنوری سے 7 جنوری 2022 تک ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں تو ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا مری جانے والی 21 ہزار گاڑیوں کو ٹول پلازہ سے واپس بھجوایا گیا مری کی سڑکوں کی پچھلے دو سال کے دوران مرمت نہیں ہوئی سڑکوں پر گڑھے پڑ جانے سے برف سخت ہو گئی جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی رات گئے ڈی سی، سی پی او اور سی ٹی او کو گاڑیوں کے بڑھتے ریلے کو رکوانے کے لئے مداخلت کرنا پڑی اور مری میں گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مری سے خارجی راستے سے برف ہٹانے کے لئے مشنری موجود نہ ہونے کے باعث کوئی گاڑی بروقت مری سے باہر نہیں نکالی جا سکی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مری کی شاہراہوں پر ٹریفک جام ہونے کے بعد برف ہٹانے والی مشنری کے ڈرائیورز بروقت نہ پہنچ سکے انتظامیہ برف باری رکنے کا انتظار کرتی رہی۔ جب صبح 8 بجے برفباری تھم گئی تو مشنری بھی حرکت میں آ گئی۔ اس وقت تک کلڈنہ، جھیکا گلی اور باڑیاں کے درمیان ”کاربن مونو آکسائیڈ“ گیس 23 جانیں لے چکی تھی۔ موت کا رقص ختم ہو چکا تھا۔ موت کا شکار ہونے والے لوگ مدد کے لئے پکارتے رہے لیکن کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے ”موت کے رقص“ کے بعد مری پر نوازشات کی بارش کر دی ہے۔ ملکہ کوہسار کو ضلع بنا دیا ہے۔ رابطہ سڑکوں کی تعمیر کرنے اور سنی بینک اور جھیکا گلی میں دو پارکنگ پلازہ اور دو تھانے بنانے کے لئے فنڈز فراہم کرنے اور سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والوں کو 8 لاکھ روپے فی کس امداد دینے کا اعلان کر کے ”اشک شوئی“ کی ہے لیکن ان اقدامات سے ان لوگوں جانوں کا کوئی مداوا نہیں ہو سکتا جو ”بے بسی کی موت“ مر گئے۔ اتنی بڑی تباہی و بربادی کے بعد اب مقررہ تعداد سے زیادہ گاڑیاں مری جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر و سابق وزیر اعظم قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات کئی دنوں سے لگاتار پیشگوئی کر رہا تھا کہ مری، گلیات سمیت ملحقہ علاقوں میں شدید برف باری ہو گی۔ اس کے لئے تیاریاں ابھی سے کرلی جائیں لیکن وزیراعلیٰ پنجاب نے اس طرف توجہ دی اور نہ ہی مری سے چند فٹ کے فاصلے پر ڈمی وزیراعلیٰ کو چلانے والے وزیراعظم عمران خان نے کوئی توجہ دی، جس کی وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا اور 23 لوگ جاں بحق ہوئے۔

پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ سانحہ مری افسوسناک امر ہے۔ محکمہ موسمیات چار دن سے شدید برف باری کی پیشگوئی کر رہا تھا لیکن پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت غفلت میں سوئی رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ حکومتوں کا کام صرف سیاح گننا نہیں بلکہ ان کے لیے پیشگی انتظامات اور حفاظتی اقدامات کرنا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سیاحوں کو سنگین صورتحال سے پہلے آگاہ کیا جاتا تاکہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے نائب صدر اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز شریف نے بھی برف میں پھنس کی جاں بحق والے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جانی نقصان کی ذمہ دار حکومت ہے۔

سانحہ مری کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے کردار بارے ”چشم پوشی“ نہیں کی جا سکتی سوال یہ ہے۔ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب نے موسم سرما سے قبل اور محکمہ موسمیات کی جانب سے موسلا دھار بارشوں اور کی پیشگوئی کے حوالے سے کوئی اجلاس بلایا؟ اگر کوئی اجلاس منعقد ہوا ہے تو کیا اس اہم اجلاس کی کارروائی کی تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں گی؟ مری کی انتظامیہ نے ممکنہ برفباری سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی پلان تیار کیا؟

شہباز شریف دور میں تو جناح ہال مری میں ممکنہ برفباری سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لئے باقاعدگی سے اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ وزیر اعلیٰ کو رپورٹس بھجوائی جاتی تھیں پھر وزیر اعلیٰ اپنی ہدایات پر عمل درآمد پر ”پہرہ“ دیتے تھے۔ کیا اب کی بار حکومت پنجاب بھی خواب غفلت کا شکار ہوئی ہے؟ کیا مری میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آفس ویران پڑے تھے۔ ان میں کوئی متعلقہ افسر موجود نہ تھا۔ ضلعی انتظامیہ نے بروقت فوج کی مدد طلب کیوں نہیں کی اور گھڑیال والے بھی کیوں طلبی کا انتظار کرتے رہے شاہراہ کشمیر این ایچ اے کے تحت آتی ہے۔ کیا این ایچ اے نے موسمی پیشگوئی کے پیش نظر کارروائی کی۔

سانحہ مری کو انتظامی غفلت قرار دے دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ برف ہٹانے والی مشنری ایک جگہ کھڑی رہی۔ شنید ہے بلڈوزروں کے لئے ڈیزل موجود نہ تھا۔ رپورٹ کی تیاری 30 سے زائد انتظامی افسران اور متاثرین کے بیانات قلمبند کیے گئے اپوزیشن جماعتوں نے سانحۂ مری کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا جسے صوبائی حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔ بہرحال سانحہ ء مری کی ذمہ داری سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بھارت میں ریل کے حادثے پر لال بہادر شاستری نے وزارت سے استعفاٰ دے دیا تھا۔ ماضی میں سانحات پر وزراء ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں جب کہ یہ سانحات ان کے ماتحت افسران و عملہ کی غفلت سے ہوتے رہیں وزیر اعلیٰ کو تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ پر نظر ثانی کرنی چاہیے سی پی او اور سی ٹی او راولپنڈی اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ وہ مری میں برفباری کے دوران ڈیوٹی پر موجود تھے۔ ان کو فی الفور اپنی ڈیوٹی پر بحال کرنا چاہیے دونوں افسران چند روز قبل ہی ان عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ برفباری کے دوران مری میں ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔ واہ عثمان بزدار واہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments