کیوں نکالا سے اگر نکالا تک


گریجویشن میں سیاسیات کے مضمون کے ابتدائی اسباق میں شہری کے حقوق کے بارے میں پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں یہ بات شدت سے آئی کہ یہ باتیں ہمارے لازمی نصاب کا حصہ کیوں نہیں ہیں یعنی اگر میں اس مضمون کو بطور اختیاری مضمون نہ پڑھتی تو شاید مجھے کبھی پتہ نہ چلتا کہ ریاست میں وہ پاپولیشن جس کو سول اور سیاسی حقوق حاصل نہ ہوں ان کو اس ریاست کا شہری نہیں کہا جاتا۔ ہم سب بچپن ہی سے سنتے ہیں کہ علم روشنی ہے کیونکہ یہ آپ کو زندگی کی راہیں دکھاتا ہے۔ بہتری کی طرف لے کر جاتا ہے اور آپ کو آپ کے حقوق کی آگاہی دلاتا ہے جس کی وجہ سے آپ استحصالی رویوں اور پالیسیوں سے خود کو بچانے کی مسلسل جدوجہد کا حصہ بنے رہتے ہیں۔

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کا وجود میں آنا کچھ عرصہ پہلے ایسے ہی خواب تھا جیسا کہ اس وقت پاکستان میں مضبوط جمہوریت۔ پاکستان کی عمر تقریباً پون صدی ہو چکی ہے اور یہ عرصہ آگے بڑھنے کے لئے کسی بھی طرح سے کم نہیں ہے مگر یہاں کے شہری ابھی تک اصل جمہوریت کی منزل سے کوسوں دور ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کو نہیں۔ ایک پارٹی کا نام ذہن میں آنے کے بعد صرف اس کے قائد کا نام ذہن میں آتا ہے اور باقی تقریباً وہی جانے پہچانے چہرے جو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں سفر کرتے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی حقیقی مقتدرہ نے ہماری سیاسی پارٹیوں کو یوں ڈگڈگی پر نچایا کہ جمہوریت اختیار کی راہداریوں میں کسی باندی کی طرح رسوا ہوئی۔ وقت نے پلٹا کھایا اور ریاست میں میڈیا ایک مضبوط ستون کے طور پر ابھرا جس سے عوام کے اندر سیاسی شعور کی ایک لہر پیدا ہوئی اور وطن عزیز کی دو اہم پارٹیوں کے سربراہان اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم ہو کر ایک دوسرے کی طرف بہتری کی نیت سے بڑھے جس کو عوامی سطح پر بہت پذیرائی بھی ملی۔

نتیجتاً مئی 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے گئے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں آمریت کے خاتمے کی طرف پہلا قدم تھا جس کی قیمت قوم نے محترمہ بینظیر بھٹو جیسی قد آور سیاسی شخصیت کی شہادت کی صورت میں دی۔ پاکستان کے سیاسی افق سے ایک درخشاں ستارے کو یوں غائب کر دیا گیا کہ باقی ماندہ سیاسی راہنماؤں کے لئے جمہوریت ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی۔ ہم سب نے دیکھا جمہوریت ہی پابند سلاسل رہی، اسی کا احتساب ہوا، یہی جلا وطن ہوئی، یہی غدار قرار پائی، یہی سولی پہ چڑھائی گئی، یہی کرپٹ ڈکلیئر ہوئی اور اسی کو مجھے کیوں نکالا سے اگر مجھے نکالا تک پہنچایا گیا۔

سیاسیات کے طلباء جناب وزیراعظم عمران خان کے حالیہ خطاب میں اگر مجھے نکالا تو میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا پر انگشت بدنداں ہیں کہ ریاست کے سربراہ کا خطرناک ہو جانا کیا ہوتا ہے؟ ایک ایسا وزیراعظم جو شروع دن سے اپنے عوام کو نہ گھبرانے کی تلقین کرتا رہا وہ خود کیسے گھبرا گیا اور کس سے گھبرا گیا؟

غربت، افلاس اور مہنگائی کی ماری یہ قوم مزید کشمکش اور گھبراہٹ کا شکار ہے کہ اب ہمارا مسیحا کون ہو گا اور کون سا وہ سخت تجربہ ہے جو ہم پر نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود ہمارا سفر رائیگاں ہے۔

مختلف تجربات اور نظاموں کے درمیان پھنسی یہ بدقسمت قوم آج بھی کسی ایک نظام کی مکمل عملداری کی منتظر ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ جناب وزیراعظم کا مخاطب آخر کون تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments