محمود اچکزئی پر ظفر اللہ خان کے الزامات کے جواب میں


\"\" اختلاف رائے رکھنا اور بیان کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن حقائق کو توڑ مروڑ کر کے پیش کرنا کسی اور زمرے میں آتا ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ الفاظ کے ہیر پھیر سے گمراہ کرنا تو پاکستانی لکھاریوں کا دھندا ہے چاہیے جہادی سلیم صافی ہو یا خود ساختہ بائیں بازو کا ظفراللہ خان ہو۔ کیا کریں بچاروں کی روزی روٹی اسی سے منسلک ہے۔ لفافوں کے چکر میں دوسروں پہ کیچڑ اچھالنا اور کردارکشی کرنا کوئی معیوب کام نہیں سمجھتے۔ ظفر اللہ خان کا پہلا ارٹیکل پڑھا جو انھوں نے اک خط کی شکل میں لکھا تھا تو بہت اچھا لگا اور میں نے نہ صرف دوستوں کے ساتھ شئیر کیا بلکہ ان کو داد بھی دی لیکن جب دوسرا پڑھا ’’طوائف مائیں، فاحشہ بہنیں، رنڈی بیٹیاں‘‘ جس میں اس نے دنیا کی غلیظ ترین گالیاں اکھٹی کرکے اپنے کالم کی زینت بنائی تھیں تو مجھے اس کی ذہنیت میں قدرے فرق محسوس ہوا جیسے کوئی سیلف سنٹرڈ بندہ اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہو۔ گو کہ وہ گالیاں انھوں نے معاشرے کی ایک بیمار ذہنیت اور انتہائی گری ہوئی سوچ کو آشکارا کرنے کے لیے اپنے کالم کا حصہ بنائی تھیں لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فورم پہ ہمیں ایسی کوئی بات زیب نہیں دیتی جو ہم اپنی ماں بہن کے سامنے نا کر سکتے ہوں۔
خیر چھوڑیں ہر ایک کی اپنی سوچ اور فکر ہے لیکن ظفر اللہ خان بھائی نے کسی کو خوش کرنے کے چکر میں اپنی قلم کا غلط استعمال کر کے (جو کہ پاکستانی رائٹرز کا شیوہ رہا ہے اور کسی کی کردار کشی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں) غلط بیانی کی ہے۔ جناب ظفراللہ خان نے بلوچستان میں مردم شماری کے غلط اعداد و شمار بیان کر کے گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ جناب کے درد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لفافے کے ساتھ کوئی ’’ڈنڈا‘‘ بھی دکھایا گیا ہے شاید، کیونکہ ان کی باتوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ کس کے تحفظات بیان کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں آباد پشتون بلوچ اقوام اپنے تاریخی وطن پہ صدیوں سے آباد ہیں اور ایک واضح فرق کے ساتھ اپنی اپنی اکائیوں میں الگ تھلگ رہتے ہیں۔ بلوچ علاقوں میں ہمیشہ سے سرداری نظام بہت مضبوط رہا ہے حتٓی کہ سرکار بھی سردار کے آگے دانستہ طور پر اپنی بے بسی ظاہر کرتی رہی ہے۔ بلوچ سردار کا سرکار سے رشتہ ہمیشہ سے دکھاوے کا کچھ اور اصلیت میں کچھ اور ہی رہا۔ سرکار نے ہرسطح پہ سردار کو سپورٹ کیا اور مردم شماری بھی اسی طرح ہوتی رہی ہے۔ بلوچ علاقوں میں ہمیشہ سے مردم شماری سردار کے بتائے ہوئے اعداد و شمار کے عین مطابق ہوئی جس میں انسانوں کے ساتھ ساتھ بھیڑ بکریوں کو بھی شامل کر کے بڑھا چڑھا کر گنا جاتا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوہلو میں آباد پشتون قبیلہ زرکون کو بھی بلوچ اور سبی کے تقریبا ساٹھ فیصد پشتون ابادی کو سردار کے کھاتے میں ڈال کے بلوچ بنا کے پیش کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلوچستان میں کبھی بھی حقیقی مردم شماری نہیں کی گئی اور اب جب کہ تقریبا نوے فیصد تک گھرانے نادرا کے ساتھ رجسٹرد ہے اس لیے سردار صاحب کو اپنی سرداری کی فکر لگی ہے۔ جناب نے جن پشتون اضلاع میں کم ابادی کا ریکارڈ شو کیا ہے وہ 1981 کی مردم شماری کے بعد اضلاع کا درجہ ملا یا پھر وہ دو یا تین اضلاع میں تقسیم ہوئے جیسے قلعہ سیف اللہ ژوب سے الگ ہو کے نیا ضلع بنا تو یقینی طور پر دونوں اضلاع کی انفرادی ابادی کا تناسب باقی اضلاع سے کم ہوگا۔ اور لورالائی ڈسٹرکٹ 1981 میں ایک ضلع تھا جو کہ 1998 میں تین اضلاع لورالائی، بارکھان اور موسی خیل میں تقسیم ہوا جس کی انفرادی ابادی تین اضلاع میں تقسیم ہو کر کم ہونا یقینی بات ہے۔ اور جہاں تک پشن کا تعلق ہے تو پشین 1975 میں کوئٹہ سے الگ کر کے ضلع بنا اور اج بھی اگر دیکھا جائے تو کویئٹہ کے بعد سب سے گنجان آباد علاقوں میں پشین اور قلعہ عبداللہ آتے ہیں لیکن پھر بھی ان اضلاع کی آبادی میں اضافے تناسب بہت سے بلوچ علاقوں سے کم ڈالا گیا ہے جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ مردم شماری کے سارے اعداد و شمار حقیقی نہیں بلکہ کچھ خاص لوگوں کی خواہش پہ پہلے سے طے شدہ فارمولے پر اندراج کیا جاتا رھا ہے۔ اور پشین 1981 اور 1998 میں ضلع کا درجہ رکھتا تھا جن کی ابادی کا تناسب زیادہ ظاہر کیا گیا جو ایک حقیقت ہے جس کو گھما پھرا کے پیش کرنے کا مطلب گمراہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
اور جہاں تک سی پیک اور اس طرح کے دوسرے نیشنل ایشوزکا سوال ہے تو گالم گلوچ اور بازاری زبان استعمال کرنے والے اور لفافہ خوررں سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں۔ سی پیک دنیا کے ایک ابھرتی طاقت چائنا اور پاکیستان کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ ہے جس کے تجارتی کے معاشی فوائد تو سب کو نظر ارہے ہیں لیکن اس کے سیاسی اور strategic اثرات کیا ہوں گے اس کو کوئی نہیں جانچ سکتا۔ پاکستان جب تک خطے میں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ اپنے اچھےتعلقات بحال نہیں کرتا اس منصوبے سے کئی اسٹرٹیجک سوالات جنم لیں گے جس سے ہمارا پشتون وطن دنیا کے بدمست ہاتھیوں کا دنگل بن جانے کا خطرہ ہے اور ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ سی پیک میں پنجاب نے بلوچ کے سائل اور وسائل کا سودا کر کے بلوچ قوم کو مردم شماری کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے اور بلوچوں کو ان کروڑوں پنجابیوں اور دوسرے قوموں کا گوادر آ کر بلوچوں کے اربوں کھربوں کے وسائل پہ قبضہ کرنا تو قبول ہے لیکن بلوچوں کو ہمیشہ اپنا سمجھنے اور سب سے قریبی ھمسایہ اور صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے پشتون قوم کی برابری قبول نہیں۔
محمود خان اچکزئی کا یہی جرم ہے کہ وہ پشتون قوم کو آزاد سوچ اور آزاد فکر دینا چاہتا ہے اور بدلے میں اپنے ہی قوم سے سب سے زیادہ گالیان سنتا رہا ہے۔ سچ پوچھو تو محمود خان اچکزئی کا حق بھی بنتا ہے کہ کوئی بھی اٹھ کہ اس پر کیچڑ اچھالے کیونکہ غلام اور بے حس قوم کا اتنا مدبر، زورآور و زڑور (بےباک)، اور دور اندیش لیڈر نہیں ہونا چائیے۔ ایک غلام اور بے حس قوم جس کا نہ تو سوچ آزاد ہے نہ فکر، نہ شاعر اپنا کردار ادا کرتا ہے نہ ہی لکھاری اپنی سوچ کے مطابق لکھتا ہے کے لیڈر کی سوچ بھی غلام ہونی چاہیے۔ یہاں تو دو کوڑی کے عوض ہم کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ پشتو کا مثل ہے ٌدرخت کہتا ہے لوہا مجھے کبھی نا کاٹ پاتا اگر اس کا دستا مجھ سے (یعنی لکڑی سے) نہ بنا ہوتا وہی مثال ہے محمود خان اچکزئی کا اگر ایسا لیڈر کیسی اور قوم کے پاس ہوتا تو اب اس قوم کی حالت مختلف ہوتی۔ محمود خان اچکزئی کا قصور یہ ہے کہ ہر موقع پر سچ کہا ہے اور سب کی انکھون میں انکھیں ڈال کے کہا ہے اسی لیے تو سارے بوٹ پالشی مل کے دوڑتے ہیں۔
اور رہی بات فاٹا پہ اختلاف رائے کا تو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا موقف بہت واضح اور اصولی ہے۔ فاتا کے لوگوں کا اپنے دھرتی سے رشتہ ہزاروں سال پر محیط ہے اور ہزاروں سال کے رشتے کا فیصلہ اتنی عجلت جلد بازی میں کرنا یا فاٹا کے اولس کو شامل کیے بغیر کوئی بھی فیصلہ بہت خطرناک نتائج مرتب کرے گا۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جس کے منشور میں فاٹا شامل ہے۔ اور محمود خان آچکزئی نے 2011 میں فاٹا پہ ایک تحریر لکھی تھی جس میں فاٹا کے مسئلہ کا حل فاٹا کے اولس کے ذریعے تجویز کیا تھا۔ لیکن سیاسی دکانداروں کے علاوہ لفافہ خور اور دانشور بوٹ پالیشی اس موقف کو اپنے پیٹ کے مروڑ کی طرح توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہے اور محمود خان اچکزئی یا پشتونخوا ملی عوامی کے سوا باقی سب راولپنڈی کے یار لوگوں کو خوش کرنے کے چکر میں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی انسان نے (against the flow) حرکت یا سوچ ظاہر کی ہے اس پر بہت تنقید ہوتا رہا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں تنقید بھی قلم اور زبان کے ماہرین کسی کی ایما اور پسند نا پسند پر کرتے ہیں۔ کوئی لفافے کے چکر میں، کوئی بوٹ پالش کے چکر میں اورکوئی سستی شہرت کے چکر میں دانستہ طور پہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں حتی کہ پیمرا بھی نہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کبھی ایف سی ار کی حمایت کی بات نہیں کی اور ہمیشہ اپنی تقاریر اور پارٹی منشور میں اس کو کالا قانون کہا۔ محمود خان اچکزئی کا موقف اپنی جگہ لیکن اصلاحات اور فاٹا کے مستقبل پہ فاٹا کے لوگوں کی رائے اور موقف کی نا صرف تائید کرتے ہے بلکہ اس پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اصلاحات کمیٹی تو ابھی کوئی ایک یا ڈیڑھ سال پہلے تشکیل پائی ہے لیکن حالات، وقعات اور حادثات کی کڑیوں کو اگر ملایا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کا فاٹا کو اپنے پورے تسلط میں لانا وہاں پر فوجی چھاؤنی بنانا اور نیم آزاد و خودمختار حیثیت سے پوری کالونی بنانا روزاول سے مقصد رہا ہے، (اسی لیے تو پشتونخوا کے نام کے ساتھ خیبر کا لفظ جوڑ کر اج سے کئی سال پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا جس کا اس وقت کوئی منطق نہیں بنتا تھا۔) اور وہ صحیح وقت اور حالات کے انتظار میں تھے لیکن ان کو یہ انداذہ نہیں تھا کہ بوٹ پالش اور سر گل خان مدعی سست گواہ چست کی طرح بیٹھے ہیں کہ کب سرکار سے اشارہ مل جائے۔ میرے بھائی ظفراللہ خان اور سلیم صافی صاحب کو تو نقد فائدے اور لفافے ملتے ہیں لیکن سر گل خان کو اقتدار کا چسکا لگ چکا ہے اور عوام سے مایوس ہو کر ’’بندوق لالا‘‘ کے کندھے پر بیٹھ کر اسمبلی جانا چاہتا ہے۔ سر گل کے لیے عرض ہے کہ تم کچھ کرو یا نا کرو تمھاری بہادری کا سب کو پتہ ہے جب یارلوگوں کو پشتون لیڈرشپ کے خون کی ضرورت ہو گی تمھیں موقع ضرور دیا جائے گا۔

*** ***

محترم حبیب وردگ نے ظفراللہ خان صاحب کی تحریر کا جواب دیا ہے۔ ایسا کرنا ان کا حق کرنا ہے۔ زبان و بیان کی اغلاط حتیٰ المقدور دور کر دی گئی ہیں۔ گالیاں حذف کر دی گئی ہیں۔ البتہ تحریر میں موجود درشتی کو دور کرنا ممکن نہیں تھا۔ امید ہے کہ ہماری انجمن مصنفین کے رکن ظفراللہ خان اس تحریر کے لب و لہجے سے درگزر فرمائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments