آرٹ، موسیقی سے رجعتی سوچ کیوں ڈرتی ہے؟


پچھلے کئی دنوں سے فیس بک پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں افغان طالبان کے ہاتھوں ایک فنکار کے آلات موسیقی جلاتے، اس پر لعن طعن اور ذلیل کرتے دیکھا جا سکتا ہے، ویڈیو میں وہ فنکار بھی نظر آ رہا ہے جس کے پھاڑے گئے کپڑوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھی کیا گیا ہے۔ بہت افسوس کا مقام ہے وہ فنکار بے بسی کی مسکراہٹ لئے ہجوم کے درمیان کھڑا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ تم لوگ ظلم کر رہے ہو۔

یہ وہی طالبان ہیں جن کی فتح کو پاکستانی میڈیا پر گلوریفائی کر کے پیش کیا جا رہا تھا۔ پاکستانیوں کی اکثریت سقوط کابل پر بہت خوش تھی اور ہے، حالانکہ ابھی چند ہی سال گزرے ہیں کہ ان لوگوں نے قریب سے طالبان کی ظلم اور بربریت کو سوات، شانگلہ، بونیر اور سابقہ فاٹا میں دیکھا تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ قتل اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے، یہ لوگ آرمی پبلک سکول کا واقعہ بھی بھول چکے ہیں جس میں معصوم بچوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا، سقوط کابل کے بعد افغانستان کے جیلوں میں بند تحریک طالبان پاکستان کے کئی کارکنوں کو رہا کر دیا۔ پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں جو کچھ طالبان نے افغانستان میں کیا اور اب جو کچھ کر رہے ہیں اگر یہی کچھ پاکستان میں کرے تو دہشتگردی مگر وہاں پر ان کے کارروائیوں کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ وہاں پر کرنے والے گڈ اور یہاں پر کرنے والے بیڈ۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے لاتعلق نہیں رہا جا سکتا اس لئے کہ اس کے اثرات بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈیورنڈ کے اس پار پڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس لئے ایسے واقعات کا ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

فن اور فنکار ایک مہذب معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، مہذب معاشروں میں ان کو عزت و اکرام سے نوازا جاتا ہے، بلکہ ایک تہذیب یافتہ اور مہذب معاشرے کی پہچان اس سے ہوتی ہے کہ وہاں پر آرٹ اور موسیقی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ آرٹ اور موسیقی اور تشدد پسندی کا ایک دوسرے سے معکوس تعلق ہے، جہاں پر آرٹ اور موسیقی کو فروغ ملتا ہے وہاں پر تشدد کے پنپنے کے مواقع کم ہوتے ہیں، اور جہاں پر آرٹ اور موسیقی سے نفرت کی جاتی ہے وہاں پر متشدد رویے فروغ پاتے ہیں جس کا اظہار معمول زندگی میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ چونکہ آرٹ اور موسیقی کا تعلق انسانی احساسات، جذبات اور اس کے اظہار سے ہے اس لئے انسانی زندگی پر اس کے مثبت اثرات پڑتے ہیں، فرائیڈ کہتا ہے کہ ”بیان نہ کیے جذبات کبھی نہیں مرتے، وہ زندہ درگور ہو جاتے ہیں، اور بعد اذان زیادہ بدنما طریقوں سے سامنے آتے رہتے ہیں۔“

دنیا کے مختلف ممالک میں انسانی زندگی کے مختلف مادی اور غیر مادی ضرورتوں کو پورا کرنے، زندگی کو خوبصورت بنانے اور سماج کو پرامن اور خوشحال بنانے کے لئے سماجی سائنس میں بھی مختلف تجربات ہو رہے ہیں، اسی ضمن میں نت نئے نظریات اور فلسفے آ رہے ہیں۔ مختلف معاشروں میں کلچر کو پروان چڑھانے پر کام ہو رہا ہے، جن معاشروں میں ارتقاء کے تقاضوں کے مطابق کلچر میں تبدیلی کو قبول کیا گیا ہے، کلچر کو نئے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے وہ معاشرے پرامن اور خوشحال نظر آ رہے ہیں اور جن معاشروں میں کلچر کو جامد تصور کر کے اس میں تبدیلی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں انسانی تعلقات اور رویؤں میں بیمار ذہنیت کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے معاشروں میں پر تشدد رویوں اور بدامنی کا فروغ پانا کوئی انہونی بات نہیں۔

وقت کے پہیے کو پیچھے کی طرف نہیں دھکیلا جا سکتا، سماجی ارتقاء کی راہ میں زیادہ دیر تک روڑے نہیں اٹکائے جا سکتے، ہاں یہ ہے کہ رجعتی سوچ کی کوشش ہوتی ہے کہ سماجی ارتقاء کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں، مگر ضرورتیں اپنی جگہ برقرار رہتیں ہیں، اس درمیانی مدت میں ظلم اور جبر کے تحت جو بھی اقدامات کیے جاتے ہیں وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ دو ہی امکانات ہیں کہ یا تو اس رجعتی سوچ والوں کو اپنی سوچ بدلنی ہے یا ان لوگوں نے فنا ہونا ہے۔ رجعتی سوچ ماضی ہے اور آنے والا دور آرٹ اور موسیقی اور تہذیبی و ثقافتی ترقی کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments