شخصیت پرستی اور اندھی تقلید


اک عجب تماشا ہے کہ شراب بکتی ہے، شباب بکتا ہے، نصاب بکتا ہے، سوال بھی بکتا ہے، جواب بکتا ہے، انسان ایسے ہیں کہ جیسے کباب بکتا ہے، پھر بھی پارسائی کے دعوے ہیں کہ زندہ ہیں بلکہ توانا ہیں۔ گناہ اور جرم کی مٹی سے بنی بے حد مضبوط دیواروں پر پارسائی کی کچی کلی کرا کر ہمیں ان دیواروں کے پیچھے دھڑوں اور گروہوں میں تقسیم کر کے مخصوص لوگ اپنے حاکمیت کے نشے کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔

ہم ایسے اندھیروں کے باسی ہیں جہاں جب تک ہماری آنکھوں میں دھول نہ جھونکی جائے ہمیں روشنی دکھائی دیتی ہی نہیں۔ جو جتنی زیادہ مہارت سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونکے وہ اتنی ہی محبتیں اور وفاداریاں سمیٹتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی جھوٹ کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے بلکہ حقیقتاً لڑھکتے ہوئے اپنی بے منزل رہ متعین کرتی ہے ظاہر ہے ایسی صورت میں منزل پانا تو دور کی بات اس کی سمت کا ادراک بھی ناممکن ہے۔ جب منزل ہے ہی نہیں تو پھر رہنماء بے ضرر ہو یا خطرناک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جس ملک میں صرف اقتدار اور اختیار سے چمٹے رہنا ہی رہنماؤں کا مقصد ہو، وہاں لوگوں کو شخصیت پرستی کے نشے پر لگا دیا جاتا ہے۔ جذبات کے سات پھیرے لگا کر، جھوٹے وعدوں اور سہانے خوابوں کی ڈور سے ہمارے حاکم ہم سے ایک بندھن باندھتے ہیں۔ ہمارے ذہن و دل پر ایسا سحر پھونکا جاتا ہے کہ ہم اس نازک ڈور کا سرا تھامے بندھن نہ ٹوٹنے کی ذمہ داری قبول کیے بیٹھے ہیں۔ شخصیت پرستی کا فائدہ ہمارے حاکموں کو یہ ہوتا ہے کہ اچھے اور برے حالات کا ذمہ دار عوام اپنے حاکموں کو نہیں بلکہ اپنے اعمال اور نصیب کو ہی ٹھہراتے ہیں۔

ہمیں ماضی کی پرانی شراب نصاب کے پیالے میں پلا پلا کر ہمارے رہنماؤں نے اس وہم میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہم اس دنیا کا مرکز ہیں اور ساری دنیا ہماری صلاحیتوں سے خوفزدہ ہو کر ہمارے خلاف سازشوں میں مشغول ہے۔ اور ہم ہیں کہ شخصیت پرستی کے نشے میں مدہوش، ماضی میں جھانکتے ہوئے مستقبل کی فکر سے بے پرواہ اپنا حال بدحال کیے بیٹھے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کے بندھن میں جکڑے لوگ اس کوڑے کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ‌ جو اپنے وجود کا احساس بڑی شدت سے دلاتا ہے اور اس کا وجود اثر بھی رکھتا ہے مگر وہ ارد گرد کی فضاء کو آلودہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ‌کر سکتا۔

جہاں حکومتیں شخصیت پرستی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہیں، وہاں عوام کی غربت، تخت پر بیٹھے حاکموں کے پاؤں کی چوکی ہوتی ہے۔ عوام کی خوشحالی ظالم اور بے کار حاکموں کی موت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت کی عظمت بیان کرنے کے لیے حاکم، حکماء، شعراء، ادیبوں اور مذہبی رہنماؤں کو بھاری اجرت پر اپنا درباری رکھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم غربت کو ایک لعنت نہیں گردانتے بلکہ غربت کی زنجیریں توڑنے والے کو گناہ گار اور مجرم تصور کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مغرب کی خوشحالی کو ہم بے حیائی سے منسلک کرتے ہیں، ہمارے حاکم ٹی وی پر ہر دوسرے دن آ کر یہ کہتے ہیں کہ مغربی اقدار ہمارے نوجوانوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماء اپنے وعظوں میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ جو قومیں اس دنیا میں خوشحال ہیں ان کا مقدر دوزخ کی آگ ہے لہذا جدید علم و ہنر حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آخرت میں نیک اعمال کام آئیں گے، دولت، اور علم و ہنر کام نہیں آئیں گے۔

جب ہمارا کوئی حکمران یہ کہے کہ ”سکون صرف قبر میں ہے“ تو سمجھ جائیں کہ یہ کوئی صوفیانہ قول نہیں بلکہ عوام کو یہ یاد دلانا ہے کہ اپنے حالات کا شکوہ کرنے سے ہم اپنے اس عہد سے منحرف ہوتے ہیں جس کے تحت ہم نے حاکموں کی پوجا کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments