ایسے استاد اب کہاں


پروفیسر جمالیؔ صاحب کا لیکچر شروع ہوتا اور حسب معمول کلاس کے اکثر طلباء پورے انہماک اور مکمل خلوص کے ساتھ سو جاتے۔ پروفیسر صاحب کے لیکچر کے دوران طلباء کا سونا ایک روٹین تھی جس میں لڑکوں کی خواہش کے علاوہ پروفیسر صاحب کی مرضی بھی شامل تھی۔ لڑکے سو رہے ہوتے تو پروفیسر صاحب کا لیکچر اپنے عروج پہ ہوتا۔ کلاس جاگ رہی ہوتی تو دونوں طرف مایوسی ہوتی۔ پروفیسر صاحب کا ردھم ٹوٹ جاتا اور ان کی زبان لڑکھڑانا شروع ہو جاتی۔

کچھ لوگوں کو نیند میں بولنے کی عادت ہوتی ہے لیکن پروفیسر جمالیؔ صاحب وہ انسان تھے جنہیں دوسروں کی نیند میں بولنے کی عادت تھی۔ جمالی ؔ صاحب کی ہمیشہ یہی خواہش رہتی کہ وہ لیکچر دیں تو سامنے توجہ سے سننے والا کوئی نہ ہو یعنی، ”کچھ نہ ’سنے‘ خدا کرے کوئی“ ۔ وہ دنیا کے ہر موضوع پہ بات کر سکتے تھے سوائے اپنے مضمون کے۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ پروفیسر جمالی ؔصاحب کے مضمون میں طلباء ہمیشہ اچھے نمبر لیتے شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ طلباء کو پہلے دن سے یقین ہوتا تھا کہ اس مضمون میں جو کچھ کرنا ہے انہوں نے خود ہی کرنا ہے لہذا اس میں وہ خوب محنت کرتے اور پاس ہو جاتے۔

دوران لیکچر پروفیسر صاحب لڑکوں سے Eye Contact بالکل نہیں رکھتے تھے۔ آتے ساتھ ہی وہ کمرے کے ایک کونے پر اپنی نگاہیں جما دیتے اور پھر پورے لیکچر کے دوران وہ کمرے کے اسی کونے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے۔ ہمیں ڈر رہتا کہ ان کی مسلسل تیز نگاہی کے باعث کمرے کے اس حصے میں سوراخ ہی نہ ہو جائے۔ ان کا پورا لیکچر انگلش میں ہوتا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان کو انگلش آتی بھی تھی۔ وہ غلط انگلش اتنے اعتماد اور اس قدر روانی سے بولتے کہ سننے والے کو اپنی درست انگلش بھول جاتی تھی۔

انگلش کے دس بارہ غلط سلط جملے انہوں نے کہیں بھلے وقتوں میں رٹ لیے تھے اور اب ان کی درس و تدریس بلکہ پوری نوکری انہیں جملوں کے طفیل چل رہی تھی۔ اور ہم چونکہ پروفیسر صاحب کے انتہائی قابل سٹوڈنٹ تھے اس لیے انگلش کے حوالے سے ذاتی طور پر ہماری قابلیت بھی ان جملوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ پروفیسر صاحب کلاس میں سوال کرنے کی شدید حوصلہ شکنی کرتے۔ اس باب میں ان کا منطق بڑا زبردست تھا اور وہ یہ کہ کسی باغیرت انسان کو کسی کے سامنے سوال نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان کے اس موقف کی تائید میں لڑکے ان کے سامنے ہمیشہ اپنی غیرت ہی بچاتے رہے اور کبھی کوئی سوال نہ کرتے۔ پروفیسر صاحب شدید ثقل سماعت کا شکار تھے۔ وہ آلۂ سماعت استعمال کرتے تھے۔ وہ جیسے ہی اپنا لیکچر شروع کرتے یہ آلۂ اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے اور پھر پوری توجہ سے اپنا لیکچر خود سنتے۔ ادھر جیسے ہی لیکچر ختم ہوتا وہ آلۂ سماعت کانوں سے اتار لیتے۔ ایسے میں ہم لوگ کوئی ضروری بات کرتے تو ان کو بالکل سنائی نہ دیتا لیکن وہ مثبت انداز سے سر کو ہلاتے رہتے جیسے کہہ رہے ہوں، ”بولتے رہیے۔ بولتے رہیے“ ۔ چنانچہ ان کا آلۂ سماعت ہمارے لیے گویا ”تالۂ سماعت“ تھا۔

یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ پروفیسر صاحب کا رنگ کالا تھا حقیقت یہ تھی کہ بہت ہی کالا تھا۔ ان کے کالے رنگ کو کسی اور کالے رنگ سے تشبیہ دینا مشکل تھا۔ کوے وغیرہ اور اس قبیل کے دیگر چرند پرند رنگ کے مقابلے میں پروفیسر سے بری طرح مار کھا گئے تھے۔ یوں سمجھئے کہ سیاہ رنگ کو مزید کسی شدید سیاہ رنگ میں کوئی دس دفعہ ملایا جائے تو جو مرکب تیار ہو گا وہ بھی شاید رنگ کے اعتبار سے پروفیسر صاحب کے سامنے پھیکا پڑ جائے۔

اس منفرد سیاہ رنگ کے علاوہ جمالی ؔ صاحب کی خاص بات ان کی ڈریسنگ تھی۔ ان کا لباس بھی ان کے رنگ کی طرح بے مثل تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر پروفیسر صاحب اور کچھ بھی نہ کرتے تو صرف اپنی ڈریسنگ کی بنا پر تاریخ میں زندہ رہ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اور کچھ بھی نہیں کیا۔ لباس میں وہ انتہائی شوخ رنگ استعمال کرتے۔ اس تاریخی ’کالے شاہ‘ رنگ کے اوپر جب وہ سفید چمکدار باریک کاٹن پہنتے تو بقول شخصے یوں لگتا جیسے کوئی کوا کسی آٹے کی بوری میں ڈبکی لگا کر نکلا ہے۔ گہرا سرخ رنگ آپ کا فیورٹ تھا۔ سردیوں میں جب آپ آتشیں سرخ رنگ کی جرسی استعمال کرتے تو جیسے شام کے وقت کسی کالے آتش فشاں پہاڑ کا منظر سامنے آ جاتا۔

پروفیسر صاحب کے لیکچر کے آخری دس منٹ لطیفوں کے لیے مختص تھے۔ اور لطیفے ایسے کہ کیا بات کی جائے۔ کسی اخلاق اور تہذیب وغیرہ کا ان کے ساتھ دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ فحش وغیرہ کا لفظ ان لطیفوں کے لیے بہت چھوٹا تھا۔ ہم دیکھتے تھے کہ ان لطیفوں پر اچھے خاصے آوارہ مزاج اور بے شرم ٹائپ لڑکوں کے بھی کان سرخ ہو جاتے۔ ان لطیفوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ آپ کسی شریف آدمی کو سنا نہیں سکتے تھے بلکہ بعض لطیفے تو ایسے ہوتے جو آپ خود اپنے آپ کو بھی دوبارہ نہیں سنا سکتے تھے۔ ایسے لطیفوں کے دوران ان کے الفاظ، لہجہ اور باڈی لینگوئج۔ سب ایک پیج پر ہوتے تھے۔ وہ صورت حال کی ایسی تصویر کھینچتے کے منظر سامنے آ جاتا۔ لیکچر کا یہ حصہ ٹھیٹھ پنجابی میں ہوتا اور اس کے دوران مجال ہے کسی کو نیند آتی ہو۔ آنکھ لگنا تو کجا لڑکے آنکھ جھپکنا بھی بھول جاتے تھے۔

پروفیسر صاحب نے عمر بھر اسی اعلیٰ جذبے اور تسلسل کے ساتھ لوگوں کو پڑھایا اور کئی نسلوں کو پورے خلوص اور مکمل سکون کے ساتھ ذہنی طور پر تباہ کیا۔ ان کی کمال عادت تھی کہ وہ ایک طرف تو اپنے اس علم کش انداز تدریس کو بھی ترک نہیں کرتے تھے اور دوسری طرف ہمیشہ گلہ کرتے کہ نجانے وطن عزیز میں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ لوگ وہ کام نہیں کرتے جو ان کے ذمے لگا ہو تا ہے۔ یہ بات انہیں مسلسل پریشان رکھتی اور وہ قوم کے درد میں گھلتے رہتے۔ اب پروفیسر جمالی ؔ جیسے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ تعلیم کے تیور بدل گئے ہیں۔ اب نا تو ایسے پروفیسر رہے نا وہ اعلیٰ درجے کے حیاء سوز لطیفے رہے اور سب سے بڑھ کر نا وہ کلاس میں پرسکون نیند کے مواقع میسر ہیں۔ ’کوئی محرومی سی محرومی ہے‘ ۔ پروین ؔ شاکر سے معذرت کے ساتھ۔ :

وہ ’کالج‘ کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عمر تھی کہ ’کلاس میں گئے‘ اور سو گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments