صوبہ بہار کی عورتیں: جہیز، افسری یا مکان


ہندوستان کے صوبہ بہار کو مذہبی، معاشرتی اور سیاسی انقلابات کی زمین کہتے ہیں۔ اس گیتی کے گاؤں گیا میں ہی بدھا کو گیان ملا تھا۔ اس سرزمین سے 1978 میں ابھرنے والی بدھ گیا تحریک نے صوبہ بہار اور ہندوستان میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس نے بے زمین ہاریوں، عورتوں اور اچھوت دلت خاندانوں کی زندگی بدل دی۔ اس تحریک کا ایک نعرہ تھا عورت کے سہ بھاگ (حصہ داری) بنا ہر بدلاؤ ادھورا

اس تحریک کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ عورتوں کی بھر پور شمولیت تھی۔

انڈیا اور پاکستان میں دیہی خواتین کے لیے زراعت ایک اہم شعبہ ہے۔ دیہی خواتین کی اکثریت زرعی مزدوروں پر مشتمل ہے۔ لیکن جس زمین پر وہ کام کرتی ہیں وہ مردوں کی ملکیت ہوتی ہے۔ انڈیا میں پچاس فی صد سے زائد خواتین زراعت سے وابستہ ہیں لیکن ملکیتی حقوق کی حامل خواتین کا تناسب صرف تیرہ فی صد ہے۔ پاکستان میں حالات اس سے بھی برے ہیں۔ پنجاب میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ایک ہزار گھروں میں صرف چھتیس خواتین کو ملکیت کا حق حاصل ہے۔ دیہی علاقوں میں خصوصی اور شہری علاقوں میں عمومی طور پر زمین انسان کے سماجی رتبے اور طاقت کی اصل بنیاد ہے۔

دہائیوں تک نوجوان قیادت میں چلنے والی بدھ گیا تحریک جنوبی ایشیا میں پہلی تحریک تھی جس نے کامیابی سے خواتین کے لیے ملکیتی حقوق حاصل کیے۔ زیادہ تر زمین اچھوت دلت خاندانوں کی بے زمین ہاری خواتین میں تقسیم کی گئی۔ ان کو مالکانہ حقوق دیے گئے جس کے بعد خواتین کی انفرادی زندگی اور اجتماعی طور پر ان کے خاندانوں کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ دیکھا گیا۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اگر عورتیں زمین کی ملکیت میں مردوں کے برابر ہو جائیں اور ان کو قرضے بھی برابر ہی دیے جائیں تو ترقی پذیر ممالک میں فصلوں کی پیداوار میں بیس سے تیس فی صد اضافہ ہو سکتا ہے۔ صرف ایک قانون ان ممالک کی مجموعی پیداوار میں ڈھائی سے چار فیصد اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

ملکیت کسی ملک کی ترقی کے سماجی اعشاریوں میں بھی بہتری لاتی ہے۔ چین کی فی کس آمدنی سری لنکا سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس ملک میں ہندو، مسلم، کرسچین، بدھ تمام خاندانوں میں خواتین کو زمین کی ملکیت میں زیادہ رسائی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کی شرح خواندگی چینی خواتین سے زیادہ ہے۔ بچوں اور ماؤں کی شرح اموات کے اعشاریوں میں بھی یہی رجحان دکھائی دیتا ہے۔

زمین کی ملکیت عورتوں کو مضبوط بناتی ہے، با اختیار بنا دیتی ہے اور ان میں خوداعتمادی پیدا کرتی ہے۔ وہ زیادہ جذبے کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ جس سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خود اعتمادی اس بوڑھی زمین دار عورت کے الفاظ میں بھی جھلکتی دیکھی جا سکتی ہے جو مودی کے خلاف پنجاب کے کسانوں کی موجودہ کامیاب تحریک کے دھرنے میں شامل تھی۔ اس کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے بالی وڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے لکھا تھا ”سو روپے لے کر یہ دادی اب کسانوں کے احتجاج میں پہنچ گئی ہے۔“ پچاسی سالہ مہندر کور نے اس کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ”13 ایکڑ زمین کی مالک ہوں، میرے کھیتوں میں ایک درجن مزدور کام کرتے ہیں۔ تم بھی آ جاؤ ملازم رکھ لوں گی۔“

پنجابی لوک گیت ہے
وے میں پنجیاں مربعیاں دی مالک
کچہری وچ ملے کرسی

مانچسٹر یونیورسٹی میں ڈیویلپمنٹ اکنامکس اینڈ اینوائرنمنٹ کی پروفیسر ہندوستانی ماہر معاشیات بینا اگروال نے عورتوں کی گھریلو اور خاندانی زندگی پر زمین کی ملکیت کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ لکھتی ہیں ”زمین کی ملکیت عورت کے پاؤں مضبوط کرتی ہے۔ عورت پر ہونے والے گھریلو تشدد کی کمی بیشی پر بھی سب سے زیادہ اثر زمین کی ملکیت کا ہے۔“

اگروال اور پردیپ پانڈا کی ریاست کیرالہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بے زمین عورت پر گھریلو تشدد کے 49 فیصد امکانات ہوتے ہیں جبکہ زرعی زمین کی مالک پر 18، مکان کی مالک پر 10 اور اگر دونوں چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں تو یہ امکانات صرف 7 فی صد رہ جاتے ہیں۔

اس معاملہ میں زمین کی ملکیت علم، دولت اور نوکری سے بھی زیادہ اہم ہے۔

جاب کرنے والی خواتین پر تشدد کا رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ اگر ان کی کمائی مرد کے برابر ہے تو، 35 اگر کم ہے تو 34 اور اگر زیادہ ہے تو تشدد کے امکانات سب سے زیادہ ہیں یعنی 69 فی صد۔ (جو کہ اب ہمارے ملک کے پڑھے لکھے خاندانوں میں خواتین کے زیادہ تعلیم یافتہ ہونے اور اعلیٰ عہدوں پر جانے کی وجہ سے عام نظر آتا ہے۔ ان عورتوں میں طلاق کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ )

اس کی سب سے اہم وجہ مردوں کا یہ خیال ہے کہ عورت ہمارے ساتھ رہنے پر مجبور ہے۔ وہ بچے اور گھر چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ وہ خود بھی سوچتی ہے کہ اب بچوں کے ساتھ بوڑھے والدین اور پرائی بھابھیوں کے در پر کیسے بیٹھ سکوں گی۔ جب وہ گھر کی مالک ہوتی ہے تو دعوے سے کہہ سکتی ہے کہ گھر اور بچے میرے ہیں، میں نہیں تم جاؤ۔ اس خوف کی وجہ سے مرد ان پر ہاتھ اٹھاتے وقت سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ”بیگم بھی گئی، بچے بھی اور بے گھر بھی ہو گئے۔“

خوشبوؤں کا شہر اجڑا گھر سے بے گھر ہو گئے
بادشاہت ہاتھ سے نکلی گداگر ہو گئے

یہی وجہ ہے کہ گھر کی ملکیت ’زرعی زمین‘ سے بھی زیادہ اہم ہے۔ وہ زمین جو کہ دیہاتی لوگوں میں دولت، طاقت اور سماجی رتبے کی بنیاد ہے۔

ایک اور تحقیق میں زمین کی ملکیت کا عورت کی مضبوطی سے تعلق مزید واضح ہوجاتا ہے۔ 81 فی صد بے زمین عورتیں تشدد برداشت کرتی رہتی ہیں۔ 19 فی صد گھر چھوڑنے کی ہمت کرتی ہیں یا زبردستی نکال دی جاتی ہیں۔ ان میں سے بھی 68 فی صد ظلم سہنے کے لیے پھر واپس چلی آتی ہیں۔ اس کے برعکس زمین کی مالک سو میں سے 71 خواتین مار پیٹ کی وجہ سے گھر چھوڑ جاتی ہیں اور منت سماجت بعد بھی ان میں سے بھی صرف 17 واپس آتی ہیں۔

بدھ گیا تحریک میں 1980 میں ایک نظم پڑھی گئی
ہماری زبانیں تھیں، ہم بول نہیں سکتی تھیں
ہمارے پاؤں تھے، لیکن ہم چلنے سے قاصر
اب ہم زمینوں کی مالک ہو گئی ہیں
تو ہم میں
بولنے اور چلنے کی ہمت آ گئی ہے۔

اگر آپ کو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے بھاگ سہاگ کی فکر ہے تو انہیں زمین کا مالک بنائیں۔ تاکہ وہ آسن جما سکیں۔ آپ نے جو جہیز دیا ہے، ان کو پڑھایا ہے، افسر بنایا، یہ سب ان کو مضبوطی نہیں بخشتے بلکہ مزید کمزور کر دیتے ہیں۔ پھر لوگ طعنے دیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق کی شرح زیادہ ہے۔

بیٹیوں اور بہنوں کو جائیداد سے ان کا قانونی حق دیں۔ وہ گھر کی مالک ہوں گی ، ان کے پاؤں کے نیچے زمین ہوگی تو جمیں گے ورنہ آسن اکھڑ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments