انتظار حسین کا ریڈیو پاکستان کو دیا گیا آخری انٹرویو (1)


جب ڈاکٹر آصف فرخی نے اپنے فیس بک پیج پر ایک فقرہ لکھا کہ THE KING IS GONE. LONG LIVE THE KING تو یقین جانئے کہ احساس یہ ہوا کہ عالمِ بالا میں موجود اردو ادب کی کہکشاں کے تابندہ ستاروں کا انتظار ختم ہوا کیونکہ انتظار حسین اب مستقل ہجرت کر کے زندگی کے پنجرے سے آزاد ہو کر اپنے دیرینہ ہمدم دوستوں سے جا ملے۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک طرف کراچی میں ڈاکٹر آصف فرخی اور امینہ سید کراچی میں ادبی میلہ سجائے انتظار صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن اس بار میلہ کہیں اور ہی سجنا تھا جس میں ناصر کاظمی، انور جلال شمزا، حنیف رامے، مظفر علی سید، خالدہ حسین، قیوم نظر، علی سردار جعفری، احمد عقیل روبی، قرةالعین حیدر، عبداللہ حسین، جمیل الدین عالی اور جون ایلیا اپنی اپنی منڈلی جمائے انتظار صاحب کے استقبال کے لئے چشمِ براہ تھے۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ انتظار حسین نے سوچا کہ اب کی بار اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ منڈلی جمانا چاہیے جن کو میرا اور مجھے ان کا مدتوں سے انتظار ہے۔ سو اپنے عہد کا سب سے بڑا داستان گو رخصت ہوا….

اور پھر ہر اس شخص نے جس کا انتظار صاحب سے تعلق تھا اپنی یادوں کو سمیٹتے ہوئے کالم لکھے۔ تاثرات لکھے۔ ان کی یاد میں شعر کہے۔ کچھ نے ان کے ساتھ کھینچی گئی یاد گار تصاویر کو اپنے اپنے فیس بک کے پیج یا ٹوئٹر پر شیئر کیا۔ اور ہم ٹھہرے ایک مضافاتی شہر بہاول پور کے باسی کہ جہاں کا بڑے لوگ کم ہی رخ کرتے ہیں۔ اور پھر میرے پاس تو کوئی شیاما چڑیا بھی نہیں ہے جو کہیں پیغام رسانی کر سکے پھر بھی میں نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکا اور اپنی یادوں کی پوٹلی کھولی تو پتہ چلا کہ میں نے بھی انتظار صاحب سے کچھ ملاقاتیں کی ہیں۔ اور پھر وہ شب یاد آ گئی جب ڈاکٹرعائشہ صدیقہ کے سردار باغ میں میرے شہر کی چند سر کردہ علمی و ادبی شخصیات موجود تھیں اور مہمانانِ خصوصی میں انتظارحسین، ڈاکٹر آصف فرخی، کشور ناہید، زاہدہ حنا، اصغر ندیم سید اور ہندوستان سے آئے ہوئے ڈاکٹر علی جاوید موجود تھے۔ اس شب سمے گزرتا جا رہا تھا اور شبنمیں رات بیتی جا رہی تھی ہر سو چاندنی پھیلی ہوئی تھی اور میں…. میں تو صرف انتظار صاحب کے سحر میں کھویا ہوا تھا وہ رام پوری مخملی ٹوپی پہنے کسی رزمیہ کے مہابلی دکھائی دے رہے تھے اور پھر آخری ملاقات ان کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل ہوئی جب میں نے ریڈیو پاکستان کے لئے ان کا طویل دورانئے کا انٹرویو کیا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ ان کا ریڈیو پاکستان کے لئے آخری انٹرویو ہو گا تو میں ان سے اور بہت سی باتیں کرتا۔ خیر اب آپ ان کا یہ انٹرویو پڑھئے، سنئے اور سر دھنئے….

س۔ انتظار صاحب میں نے کہیں پڑھا تھا کہ آپ 1948ء میں ریڈیو پاکستان کے ذریعے محمد حسن عسکری کا پیغام سننے کے بعد پاکستان ہجرت کر کے آئے تھے کیا یہ درست بات ہے؟

ج۔ درست آپ نے سنا۔ اصل میں عسکری صاحب سے میری وابستگی اس وقت ہوئی جب میرٹھ میں ان کا خاندان آباد تھا، تو ہم تو یہی سمجھتے تھے اپنے طالب علمی کے زمانے سے کہ بھئی کہیں دور کے شہر کے ہوں گے اور ”ساقی“ میں ان کی” جھلکیاں“ شائع ہوا کرتی تھیں۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ فراق صاحب کے واسطے سے ہمارا ان سے تعارف ہوا۔ یعنی ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم فراق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور ہم انہیں اپنے کالج میں لے کر آئیں۔ اور بڑی خواہش تھی کہ انہیں سنیں۔  اور ان کا بہت اچھا لیکچر نئے ادب پر ہوا تو اسی ادب پر لیکچر پردیتے دیتے باتیں کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ یہ میرے سامنے حسن عسکری صاحب بیٹھے ہیں۔ تو ہم بہت متعجب ہوئے کیونکہ فراق صاحب کو ہم لے کر آئے تھے تانگے میں بٹھا کر اور ان کے ساتھ ایک صاحب بیٹھے تھے۔ ہمیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ یہ کوئی ادیب ہو سکتے ہیں۔ بہت ہی سادہ لباس تھا ان کا ڈھیلی ڈھالی اچکن میں ملبوس۔ تو بہت تعجب سے ہم نے انہیں دیکھا اور ہمارے طلبا کی جوایک کمپنی ہوتی ہے ان میں سے ایک صاحب بولے آپ کون سے عسکری ہیں۔ کیا حرام زادی والے عسکری ہیں؟ تو انہوں نے کہا جی جی (ہنستے ہوئے) جی تو ہم بہت متعجب ہوئے، تو پھر اس کے بعد ہی ہمیں یہ احساس ہوا کہ ارے یہ تو میرٹھ میں ہی ہیں آج کل۔ بڑی اچھی بات ہے تو میرا ان سے بہت جلد ہی ایسا تعلق قائم ہو گیا کہ بہت ہی قُرب کہنا چاہئیے۔ اور پہلے ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ بھئی پارٹیشن ہو گیا پاکستان بن گیا بڑی اچھی بات ہے لیکن ہم ہندوستان ہی میں رہیں گے تو میں دلی میں رہوں گا اور تم بھی دلی میں آ جانا۔ کچھ نہ کچھ ہوجائے گا معاملہ۔ تو منصوبہ یہی تھا۔ لیکن وہ زمانہ عجیب تھا کہ لوگ اچانک اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ کوئی پہلے سے منصوبہ نہیں ہے کچھ نہیں ہے۔ وہ ایک رَو تھی بس تو وہ آئے تھے لاہوراپنے پبلشر سے ملنے کے لئے کہ بھئی ہم تو ہندوستان میں ہیں اور وہ بھی پبلشر ہمارا پاکستان میں ہے”مکتبہ جدید“ تو وہاں انہوں نے یہ طے کیا کہ میں اب پاکستان میں رہوں گا۔ اور انھوں نے اپنے خاندان کو یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگ آ جائیں جبھی سپیشل ٹرین چلنا شروع ہو گئی تھی اور انتظار سے کہو کہ وہ بھی تمہارے ساتھ آ جائے۔ اب انہوں نے جو میسج دیا تو میں نے سنا۔ ٹھیک ہے پھر ہمارے ارد گرد جو تھے بہت سے نوجوان، جس میں سلیم احمد بہت نمایاں نام ہے۔ تو وہ تو جیسے آنے کو تیار بیٹھے تھے اسپیشل ٹرین آ رہی تھی تو میرا کوئی

خیال بھی نہیں تھا تو وہ ایک ایسی فضا پیدا ہوئی ان کہ گفتگو سن کر کہ میں نے سوچا کہ میں جاﺅں کہ نہ جاﺅں۔ تو ہاپوڑمیں میرے خاندان کے لوگ تھے والد، والدہ۔ تو میں میرٹھ سے ہاپوڑ گیا قریب ہی تھا تومیں چلا گیا اور میں نے اپنا سامان لیا تو میری والدہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ دیکھئے نا جو ہماری بڑی بہن تھیں وہی میرے بارے میں فیصلہ کیا کرتی تھیں۔ میں نے ان سے جا کے کہا کہ میں پاکستان جا رہا ہوں تو وہ خود کنفیوز ہو گئیں کیونکہ انہوں نے ابھی تک طے نہیں کیا تھا۔ کہ واقعی انہوں نے پاکستان جانا ہے۔ ان کے بیٹے جو تھے وہ بھی زیر تعلیم تھے۔ کوئی ایسا ابھی تک ذکرتھا ہی نہیں کہ ہمیں پاکستان جانا ہے تو کچھ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ جا رہے ہو تو ٹھیک ہے چلے جاﺅ(ہنستے ہوئے)۔ تو میں نے سوچا کہ ذرا جا کے دیکھنا تو چاہئیے یعنی یہ اس وقت ذہن میں نہیں تھا کہ میں جو اب جا رہا ہوں واپس نہیں آ سکوں گا۔ لیکن جب میں پاکستان (لاہور) اُتر رہا تھا اور جب میں وہاں پہنچا تو یکایک مجھے یہ احساس ہوا کہ میں تو یہاں آ گیا۔

س۔ آپ نے ہجرت کے بعد لاہور کو ہی اپنا مسکن کیوں بنایا؟

ج۔ غیر شعوری طور پر تو ایک تو مجھے یہ احساس تھا کہ کراچی جو ہے ایک تو یہ ریگستانی علاقہ ہے اور مجھے موسم جو پسند ہے ساون بھادوں کا، میلے جو تھے بہت اپیل کرتے تھے بچپن سے اور میں نے کہا کہ وہاں تو بارشیں ہی نہیں ہوتی ہیں اور وہاں تو وہ درخت وغیرہ بھی نہیں ہوں گے تانگہ بھی نہیں ہو گا اور یہ لاہور جو ہے وہ تو قریب ترین وہی موسم وہی سبزہ ہے تو مجھے لاہور ہی رہنا چاہئیے۔ لاہور میں آکر ٹک گیا لیکن ایک ایسا وقت آیا یہ صحافت عجیب پیشہ ہے اور اردو صحافت کا ہمارے یہاں یا تو اخبار بند ہو جاتا تھا یا وہاں کوئی سیاست چلتی تھی اور اس میں کچھ لوگوں کو نکلنا پڑتا تھا۔ یہ ہوتا رہتا تھا۔ تو میرا آغاز اس طریقے سے ہوا کہ پہلے تو میں ایک ویکلی کا ایڈیٹر بن گیا تھا۔ لیکن وہ بہت جلد ہی بڑا چڑھا تھوڑے عرصے تک اس میں CONTROVERSYچلی اور اس کے بعد وہ نیچے آنے لگا تو میں نے دیکھا کہ اب یہ جا رہا ہے اور ”امروز“ سے میرا انٹرویو ہو چکا تھا پہلے سے تو اب ”امروز“ میں پھر گنجائش تھی، ان کا دوسرا ایڈیشن نکل رہا تھا کراچی سے، تو میرے لئے وہاں جگہ موجود تھی۔ میں نے ان کو چھوڑا فوراً اور ”امروز“ میں چلا گیا تو یوں میری صحافت کی زندگی شروع ہو گئی۔ لیکن جب ہمیں نکلنا پڑا امروز سے تو ایک لمبا دور جو ہے آیا بے روزگاری کا۔ اور اس زمانے اس وقت تک میری دوستیاں بن چکی تھیں۔ ناصر کاظمی سے میرا رشتہ پیدا ہو چکا تھا۔ اور مظفر علی سید اور شاکر علی آ گئے تھے وہاں تومجھے یہ کمپنی اور صحبت بہت اچھی لگ رہی تھی کہ میں تو بالکل تنہا پھرتا تھا۔ اور یکایک مجھے ایسے دوست مل گئے کہ میں نے سوچا کہ جیسا میں لاہور میں SETTLE ہو گیا ہوں اور یہ حلقہ بن گیا ہے ہم مزاجوں کا تو اب وہاں سے جو ٹیلی فون آیا ایک مرتبہ کراچی کا کہ تمہیں کچھ نہیں مل رہا تو تم کراچی آ جاﺅ۔ کراچی میں ہو جائے گا بندوبست۔ اور شاہد احمد دہلوی جو ہمارے بزرگ تھے ان کا بھی ایک خط آیا کہ آپ آ جاﺅ۔ اور ایک خط عجیب آیا عسکری صاحب کا کہ وہ سلیم احمد یہ کہتا ہے کہ انتظار کو ناصر کاظمی کی صحبت بگاڑ رہی ہے۔ اسے بلا لو یہاں، تو میں نے یہ سوچا کہ میں اگر کراچی جاتا ہوں تو عسکری صاحب کا مطلب ہے صرف عسکری صاحب۔ اور سلیم احمد کا مطلب یہ ہے کہ سلیم احمد اور اس کی اُمت اس کے ساتھ۔ کیونکہ وہ پنچائتی گروپ بنا کر چلتا تھا یہ تو میں نے کہا کہ اس کی امت کے بیچ میں، میں خراب ہونے سے بہتر ہے کہ میں ناصر کاطمی کی صحبت میں خراب ہوں تو میں نے کہا کہ مجھے یہیں رہنا چاہیئے۔

(جاری ہے)

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments