سندھ کے موزارٹ۔ استاد نیاز حسین کی تیسویں برسی


سروں کی ملکہ، عابدہ پروین کی آواز میں گائی ہوئی حکیم ناصر کی مشہور زمانہ غزل ”جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔“ ہو، یا انہی کی آواز میں ابن انشا کا کلام ”کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا۔“ ، ظہیر وارثی کی آواز میں گائی ہوئی ناصر کاظمی کی غزل ”دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔“ ہو یا رجب علی کی آواز میں مصطفیٰ زیدی کا کلام ”کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئی رازداں نہیں ہے۔“ ، ان تمام اور ان جیسے لاتعداد گیتوں اور غزلوں کو سننے سے سندھ کے جس باصلاحیت موسیقار کے سروں کی خوشبو، سماعتوں کو مہکاتی ہے، وہ کوئی اور نہیں، بلکہ موسیقی کے گوالیار گھرانے کے منفرد موسیقی دان، استاد بیبو خان کے سب سے بڑے اور قابل فخر فرزند، سندھ کے جدت پسند، ورسٹائل، تخلیقی اور آل راؤنڈر موسیقار، استاد نیاز حسین ہیں، جو آج سے پوری 3 دہائیاں قبل یہ جہان عارضی تو چھوڑ گئے، مگر ان کی انگلیوں نے اپنے جادو سے ہارمونیم کی ’کیز‘ پر حرکت کر کے جو امر دھنیں تخلیق کیں، ان کی عمر صدیوں سے بھی طویل ہے۔

یہ وہی نیاز حسین ہیں، جن کو سندھ کے خوبصورت اسلوب والے شاعر، شمشیر الحیدری نے ”موسیقی کے میدان کا دلبر“ کہا، تو ممتاز مرزا نے ”سندھی راگ کا زبردست علم رکھنے والا جان کار“ کہا۔ نامور گیت نگار، سید منظور نقوی نے ان کو ”موسیقی کا گائیک اور نائک“ کہہ کر پکارا، تو زوار نقوی نے ”سندھ کے وولفگینگ موزارٹ“ کا خطاب دے کر یاد کیا۔

نیاز حسین قریشی، المعروف استاد نیاز حسین، 24 جنوری 1936 ء کو کراچی میں استاد محمد ابراہیم المعروف استاد بیبو خان کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا تعلیمی سلسلہ حیدرآباد سندھ میں طے ہوا اور انہوں نے کھائی روڈ حیدرآباد پر واقع الفاروق مسلم پرائمری اسکول سے سندھی فائنل کا امتحان پاس کیا، جہاں ابن الیاس سومرو، محمد نواز اعوان اور جان محمد جمالی جیسے مثالی اساتذہ نے ان کی رسمی تعلیم کی تکمیل میں مثبت کردار ادا کیا۔

ساتھ ساتھ استاد امام الدین خان نے انہیں قرآنی تعلیم دے کر راہ روشن سے آشنا کیا۔ جس طرح گوالیار جیسے موسیقی کے عظیم گھرانے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی سنگیت کی تربیت کا آغاز بھی اس کے انتہائی بچپن ہی سے ہو جاتا ہے، ویسے ہی اس ننھے بچے کی سروں کی تربیت بھی بچپن ہی سے، استاد مبارک علی خاں کی نگرانی میں شروع ہوئی، جنہوں نے جہاں ان کی رسمی سنگیت کی تربیت کی، وہیں استاد محمد عثمان نے انہیں مغربی موسیقی کی رموز سے بھی آگاہ کیا۔

جبکہ وہ ’پلے بیک میوزک‘ کے لحاظ سے ”موسیقار اعظم“ ۔ نوشاد علی سے بے حد متاثر تھے اور انہیں اپنا ”روحانی استاد“ مانا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ انہوں نے نوشاد صاحب کی تخلیق شدہ دھنوں کے انداز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ موسیقی کی اس ہمہ جہت تربیت کے تحت انہوں نے، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحہ کے راگ کو کمپوز کرنے میں اسپیشلائز کرنے کی غرض سے ’شاہ کے راگ‘ کی رموز کو سمجھنا خود کے لئے ضروری سمجھا اور اس میدان میں انہوں نے شاہ لطیف رحہ کے راگ کے ماہر، سید غلام شاہ سے باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

اس تربیت کے بعد ہی استاد نیاز حسین نے، ”شاہ لطیف کی وائی کے پہلے با ضابطہ موسیقار“ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ موسیقی کی دنیا میں ان کا منفرد کارنامہ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحہ کی وائی کو پہلی مرتبہ صحیح اور صاف تلفظ، لہجے خواہ مفہوم کے ساتھ کمپوز کر کے قابل فہم بنانا اور اس پیغام کو عام فہم بنا کر عام کرنا ہے۔

نیاز صاحب کی ریڈیو کے ساتھ وابستگی اسی برس سے شروع ہوئی، جس سال 1955 ء میں حیدرآباد میں ریڈیو کی نشریات شروع ہوئیں۔ اور اس عظیم ادارے کے ساتھ ان کا یہ اڻوٹ تعلق، ان کی آخری سانس تک ( 1992 ء تک) مسلسل 38 برس جاری رہا۔ جبکہ پاکستان ٹیلی وژن کے ساتھ ان کی وابستگی بھی اسی برس شروع ہوئی، جس سال پاکستان میں ٹی وی نے اپنی نشریات شروع کیں، جو 1964 ء کا سال تھا۔ ٹیلی وژن کے ساتھ ان کا سرگرم ساتھ 1984 ء تک جاری رہا، مگر انہوں نے بعد ازاں بھی کبھی کبھی ٹیلی وژن سے پروگرام کیے ۔

ان کا آخری ٹی وی پروگرام 1990 ء میں ریکارڈ اور نشر ہونے والا تمثیلی موسیقی کا پروگرام ”سر جو سفر“ تھا۔ ریڈیو حیدرآباد، استاد نیاز کا دوسرا گھر تھا، جہاں سے کم و بیش ساڑھی 3 دہائیوں تک نشر ہونے والے موسیقی کے روزانہ معمول کے پروگرامز میں موسیقی ارینج کرنے سے لیکر، ”ریڈیو میوزک اسکول“ ، ”سانڑیہہ جا سینگار“ (وطن کا سنگھار) ، ”راگ پہیلی“ وغیرہ جیسے نشر ہونے والے خصوصی سلسلہ وار پروگرامز، ان کے تخلیق شدہ سروں کے جادو کی وجہ سے سامعین میں بے حد مقبول ہوئے۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی میوزک لائبریری میں آج بھی استاد نیاز کے کمپوز کیے ہوئے ڈھائی ہزار سے زیادہ موسیقی کے اسم موجود ہیں۔

استاد نیاز صاحب نے، 1950 ء میں کھائی روڈ حیدرآباد پر ”سندھ میوزک کالج“ کے نام سے موسیقی اور تھیٹر کی تربیت کا ایک ادارہ بھی قائم کیا، جس کی جانب سے انہوں نے 1956 ء تا 1962 ء موسیقی کے کئی ایک پروگرام اور ”جشن بہاراں“ ، ”سسی پنوں“ ، ”غدار لیڈر“ ، ”ہم سب ایک ہیں“ وغیرہ سمیت متعدد یادگار سندھی اور اردو اسٹیج ڈرامے پیش کیے ، جن میں انہوں نے بذات خود ہدایتکاری اور اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ یہ کھیل حیدرآباد کے شائقین نے بے انتہا پسند کیے اور انہیں طویل عرصے تک یاد رکھا گیا۔

1980 ء۔ 1981 ء میں جب ”سندھی ناٹک کی صدی“ منائی گئی، تو اس کے تحت پیش ہونے والے چھ ڈراموں کی پس پردہ موسیقی استاد نیاز حسین نے ترتیب دی، جن ڈراموں میں ”لیلىٰ مجنوں“ ، مرزا قلیچ بیگ کے لکھے ہوئے ڈرامے ”انکوائری افسر“ ، ”ٹی پارٹی“ ، ”زمینداری ظلم“ ، ”شاہدی“ اور ”تماشو“ جیسے یادگار اسٹیج کھیل شامل ہیں، جو خود نیاز صاحب کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حیدرآباد میں ایک آڈیو کیسٹ کمپنی کی داگ بیل بھی ڈالی، جس کی جانب سے موسیقی کے 50 سے زائد آڈیو البمز، کیسیٹس کی صورت میں ریلیز کیے گئے۔

موسیقی کے ہر طالب علم کی انگلیاں، ہارمونیم پر تو رقص کرنے کی ماہر ہوا ہی کرتی ہیں، مگر استاد نیاز نے، ہارمونیم جیسے مشرقی ساز کے ساتھ ساتھ، سخت محنت کے ساتھ کئی دیگر مشرقی و مغربی ساز بھی مہارت کے ساتھ بجانا سیکھے، جن میں پیانو، ستار، وائلن، اکارڈین، بینجو، گٹار، وچتر وینا اور متعدد دیگر ساز بھی شامل ہیں۔ کمپوزیشن تخلیق کرنے کے لحاظ سے استاد کے پسندیدہ راگ، مالکونس، بھوپالی، رانڑو، سیندھڑو، تلنگ، بھیروی، لوڑاؤ، میاں کی ٹوڑی اور ایمن تھے۔

استاد نیاز حسین نے جن گلوکاروں کو موسیقی کی تربیت دے کر، سنگتراش کی طرح تراش کر خوبصورت مجسموں کا روپ دیا، ان کی تعداد تو کثیر ہے، مگر ان میں سے چند اہم نام، جمال صدیقی، سی برنالڈ بیبی، شازیہ خشک، پریوش بھٹو، غلام قادر ڈاوچ، شیرل نیک بروری، سلیم نوشاد، عبدالرشید، سحرش میمن، شفیق احمد، رحیم بخش سومرو، مسعود رعنا، رجب علی، ان کے اپنے فرزند۔ ذوالفقار علی، نذر حسین، مظہر حسین، امانت علی اور محمود علی وغیرہ شامل ہیں، جبکہ انہوں نے عابدہ پروین، استاد محمد یوسف، وحید علی، علن فقیر، مائی بھاگی، نور بانو، فوزیہ سومرو، زرینہ بلوچ، بشارت علی شاہ، سحرش میمن جیسے فنکاروں کو فن کی دنیا میں ریڈیو خواہ اسٹیج پر باقاعدہ روشناس اور متعارف کرایا۔

استاد نیاز حسین کے فن کی ہر سطح پر ستائش ہوئی۔ انہیں 1964 ء سے 1974 ء تک پاکستان ٹیلی وژن کی جانب سے متعدد تعریفی اسناد، 1986 ء اور 1978 ء میں دو مرتبہ ’لال شہباز قلندر ایوارڈ‘ اور ’سچل سرمست ایوارڈ‘ سمیت دیگر کئی صوبائی اور قومی سطح کے انعامات، اعزازات اور ایوارڈز ملے۔ نہ صرف دوران حیات، بلکہ بعد از وفات بھی مختلف اداروں نے ان کے فن کی ستائش میں انہیں ایوارڈز دیے، جن میں 1992 ء میں انہیں ملنے والا ’پرانڑ ایوارڈ‘ ، 1993 ء میں ’پی بی سی‘ (ریڈیو پاکستان) ایوارڈ، 2009 ء میں ملنے والا ’لطیف ایوارڈ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ کے ہر اہم میلے، عرس، قومی دن سمیت، ہر سرکاری اور غیر سرکاری جشن میں موسیقار، آرکیسٹرا انچارج اور میوزک ارینجر کے طور پر استاد نیاز حسین کی نمایاں شرکت، ان اجتماعات کی اولین ضرورت اور باعث حسن افزائی ہوا کرتی تھی۔

استاد نیاز حسین نے، 12 مئی 1962 ء کو شادی کی۔ انہیں چار اولاد نرینہ بنام ذوالفقار علی (جو، اب معروف گلوکار و میوزیکالاجسٹ ہیں ) ، میاں نذر حسین (جو اس وقت منجھے ہوئے موسیقار ہیں ) ، مظہر حسین (جو بھی اب معروف گلوکار کے طور پر جانے جاتے ہیں ) اور امانت علی جبکہ ایک بیٹی ”جیئا“ کی اولاد عطا ہوئی۔

حمد، نعت، سوز، سلام، نوحوں، مرثیوں، منقبتوں اور بھجنوں جیسی مذہبی اصنفاف موسیقی کی کمپوزیشنز سے لیکر، ان گنت سندھی، اردو، سرائیکی اور پنجابی کلاسیکی، نیم کلاسیکی کلاموں، کافیوں، گیتوں، لوک گیتوں، غزلیات، منظومات، آزاد نظموں، ہائیکو، مزاحیہ گیتوں، سدا رنگی کلاموں، موضوعاتی گیتوں اور ’کمرشل جنگلس‘ کو کمپوز کرنے والے استاد نیاز حسین، جب تک حیات تھے، ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا معیار و مقدار کے لحاظ سے بھرپور اظہار کرتے رہے، اور مسلسل یہ فنی مشقت انجام دیتے رہے اور اس جہان فانی میں ان کو یاد رکھنے کے لئے اپنا تا دیر یاد رکھا جانے جیسا کنٹریبیوشن چھوڑ کر، 56 برس 14 روز کی عمر پا کر، 30 برس قبل، 7 فروری 1992 ء کو جمعے کی رات 8 بجے کے قریب، شاہ لطیف کی سندھ سے بچھڑ گئے۔

وہ آج حیدرآباد میں ٹنڈو یوسف کے قدیم قبرستان میں آرامی ہیں۔ اور ان کے کمپوز کیے ہوئے لاتعداد گیت، کلام اور کافیاں، آج بھی سندھ کی فضاؤں میں گونج رہی ہیں اور گونجتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments