فیصل واؤڈا کیس اور انصاف کی تڑپتی بھٹکتی روح


اور بالآخر فیصل واوڈا نا اہلی قرار پایا، ”پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا“ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو اسی وقت ہوجانا چاہیے تھا جب پہلی بار عدالت میں فیصل واوڈا کی بے ایمانی بددیانتی کی تصدیق امریکی قونصل خانے نے کی تھی کہ قومی اسمبلی انتخابات کے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت فیصل واوڈا دوہری شہریت کا حامل تھا اور اس نے اس وقت اپنی شہریت کے متعلق جھوٹا حلف نامہ داخل کرایا تھا، مگر اگر اپنے وقت پہ ہی انصاف ہوجاتا تو پاکستان قانون و انصاف کے معاملے میں دنیا کے تین بدترین ممالک کی فہرست میں کیسے آتا۔

یہاں انصاف اپنوں کے لیے اور، غیروں کے لیے اور ہے، حامیوں اور مخالفین کے لیے بھی انصاف کا معیار دوہرا ہے، عام شہریوں اور خواص کے لیے الگ ہے، حامی انتخابی کامیابی کے جعلی ہونے کی تصدیق ہو جانے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نا اہل ہو جانے کے بعد بھی اسٹے آرڈر پر تین تین سال سے عہدوں اور مراعات کے مزے لوٹتے ہیں، انتخابی عذر داریاں پانچ سال کی مدت ختم ہو جانے تک بھی انصاف کی راہ تکتی رہتی ہیں، کئی انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں آج ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود جعلی ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے والے وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات کے بعد قانون و انصاف، آزادی رائے، پریس فریڈم سمیت ملک کی سیاسی معاشی اور معاشرتی صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی گئی۔ جمہوری قوتیں کمزور ہوتی گئیں اور سویلین بالادستی کی جگہ ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ڈیپ اسٹیٹ والی اصطلاح مضبوط ترین ہو گئی۔

کل سپریم کورٹ جانے کا اتفاق ہوا، سندھ کے شہر ٹھٹھہ سے آیا ہوا ایک سائل ملا جس نے بتایا کہ اس نے ایک مقدمے میں انصاف نہ ملنے پہ فروری 2016 میں سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، جس بینچ نے آئینی پٹیشن پہ فیصلہ دیا تھا اس بینچ میں تین معزز جج صاحبان تھے جو تینوں کے تینوں ریٹائرڈ ہو چکے، بار بار فوری کیس کی شنوائی کی درخواستیں دائر کر چکا ہوں وکلاء کو لانے لے جانے اور ان کی فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں لاکھوں روپے برباد کر چکا ہوں مگر آج 2022 میں بھی میری نظرثانی کی درخواست کی شنوائی ہو نہیں پا رہی۔

انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے ایک وہ لوگ ہیں جنہیں سالہا سال سے انصاف کے لیے دھکے کھانے پر رہے ہیں اور ایک وہ لوگ ہیں جو ایک دن نا اہل ہوتے ہیں تو دوسرے دن ہی ان کی نا اہلی کا فیصلہ معطل ہوجاتا ہے اور وہ بحال ہو جاتے ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جو انڈر ٹرائل ہوتے ہوئے سالوں سے ضمانتوں کے انتظار میں جیلوں میں سڑ رہے ہیں تو ایک وہ لوگ ہیں جو مجرم ہوتے ہوئے بھی نہ صرف ضمانتیں حاصل کر لیتے ہیں بلکہ سرکاری سرپرستی میں وی وی آئی پی پروٹوکول میں ملک سے باہر بھجوا دیے جاتے ہیں، ۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی جائیدادیں، اکاؤنٹ چھوٹے موٹے مقدمات میں پیش نہ ہونے پہ منجمد کر دیے جاتے ہیں تو کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو منجمد اکاؤنٹس میں سے بھی لاکھوں ڈالر نکلوا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں عدالتوں کی ناک کے نیچے سے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور قانون کا منہ چڑاتے ہیں۔

عالمی قانون میں ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ”انصاف میں دیر کا مطلب ہے انصاف سے انکار“ پاکستان بھی عدل و انصاف کے معاملے پہ اسی صورتحال کا شکار ہے، جس ملک میں ایک ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی آئینی درخواست کو مختلف تاخیری حربے استعمال کر کے سننے سے محروم رکھا گیا، یہاں تک کہ وہ چیف جسٹس جس نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک آئین شکن قاتل فوجی آمر جرنیل کو سزائے موت جیسی دلیرانہ سزا سنا کر ملکی قانون کی بالادستی، منصفانہ غیر جانبدارانہ عدل و انصاف کی مثال قائم کی وہ اپنی سینیارٹی کے معاملے پہ اپنی ہی عدالت عظمیٰ سے انصاف حاصل کیے بنا ہی دنیا سے رخصت ہو گیا، سپریم کورٹ کا ایک موجودہ معزز جج محض اس لیے مسلسل زیر عتاب ہے کہ اس نے ملک کے اصل حاکموں کو للکارا، انہیں ان کی اوقات یاد دلائی، سیاست میں ان کی بے جا مداخلت کے خلاف دلیرانہ فیصلے صادر کر کے اپنی حیثیت اور رتبے کا عدالت عظمیٰ کی توقیر و تکریم کا بھرم رکھا۔

اسی ملک کی عدالت عظمیٰ ملک کے وزیراعظم کے غیر قانونی قبضے کی زمین پہ غیر قانونی محل کو قانونی قرار دے کر اسے ریگیولرائز کرتی ہے، ایک طاقتور وزیر کے غیر قانونی قبضے پہ بنے فارم ہاؤس کے خلاف تو آنکھیں موند لیتی ہے لیکن وہی عدالت کراچی کے نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دے کر ایک سو سے زائد خاندانوں سے ان کی چھت چھیننے کا حکم صادر فرما کر ایک لمحے میں نسلہ ٹاور کو مسمار کرنے کا حکم جاری کر کے ان بے بس و مجبور پاکستانیوں کو سڑک پہ لے آتی ہے۔

آج پاکستان کی عدالت عظمیٰ سے لے کر اعلٰی عدالتوں اور ان کے ماتحت عدالتوں میں لگ بھگ 23 لاکھ مقدمات التوا کا شکار ہیں، جن میں سے کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ کئی کئی سالوں سے انصاف کی راہ تکتے تکتے ہزاروں لاکھوں فائلوں میں کہیں گم ہو چکے ہیں، مگر جو محترم ہستیاں انصاف و قانون کی بالادستی اور بلا امتیاز فراہمی، قرآن و سنت میں اللہ و رسول کی جانب سے وضع کیے گئے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ریاست کی رعایا کو انصاف دینے کا حلف اٹھا کر منصفین کی کرسیوں پہ براجمان ہیں انہیں اپنی سیاسی حکومتوں کے انتظامی اختیارات و معاملات میں مداخلت اپنے لامحدود اختیارات کی تشہیر کے سوا اور کسی چیز سے غرض نہیں ہے، اسی لیے آج پاکستان انصاف و قانون کے معاملے میں دنیا کا تیسرا بدترین ملک بن چکا۔

آج ملک احتساب کے نام پہ بدترین سیاسی انتقام کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، ہر روز ریاست خود اپنی ہی رعایا کی جبری گمشدگیوں کے الزامات کا سامنا کر رہی ہوتی ہے اور جبری گمشدہ لوگ اور ان کے لواحقین سڑکوں پہ انصاف کی دہائیاں دیتے ریاست کو کوستے اور اپنوں کے بچھڑنے کے درد میں روتے بلکتے نظر آتے ہیں جبکہ قانون و انصاف فراہم کرنے والے رعایا کی دادرسی کرنے انہیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے بے بسی کی تصویر بنے عدل و انصاف کا شیرازہ بکھرتے دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں اس وقت قانون اور انصاف کی تڑپتی بلکتی روح دربدر بھٹک رہی ہے اور بے بس و مجبور رعایا کو عدل و انصاف کے کرن بجھتی نظر آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments