سوشل میڈیا: جہاں ہم اکثر ہم نہیں رہتے


سوشل میڈیا پر مسلسل ایکٹو رہنے، پوسٹ لکھنے، دوسروں کی تحریروں پر کمنٹس، شیئر، لائک اور اپنی سوچ کے مطابق کسی کا نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کا بھی ہم پر یہ اثر ہوتا ہے کہ ہم خود کو کئی مرتبہ بہت اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اس کائنات کی حرکت ہمارے لکھنے، پڑھنے اور متحرک رہنے کی وجہ سے ہے۔ یہ اثر اتنا خفیف ہوتا ہے کہ ہمیں خبر تک نہیں ہوتی اور ہم بس اپنی دھن میں ہی مست و مگن رہتے ہیں، لیکن یہ اثر بہت گہرائی تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس قدر کہ اس کی وجہ سے ہمیں کسی بھی وقت دھچکا لگ سکتا ہے لیکن ہم اس حوالے سے کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

دانستہ یا نادانستہ، یہاں لکھتے ہوئے ہم اپنی ایک ایسی تصویر بنا رہے ہوتے ہیں، جس کا بنیادی احساس یہ ہے کہ ہم سب سے بہتر، سلجھے ہوئے اور بہترین انسان ہیں۔ حالانکہ یہ رویہ دنیا کے لیے نہیں ہمارے لیے مہلک اور جان لیوا ہے مطلب ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور اس کا براہ راست اثر ہماری حقیقی زندگی پر پڑتا ہے۔ حقیقی زندگی میں ہم ہر قسم کی کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔

ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ ہم بیچ بیچ میں غائب ہو کر اور اس دنیا سے باہر نکل کر سوچیں، برتاؤ کریں اور اس بے ساختگی کے دامن کو تھامے رہیں جس کے ایک پار چلے جانے سے سب کچھ منتشر اور درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اپنے آپ کو معمولی سمجھ کر خود کو بچائے رکھنے سے بڑھ کر کوئی اہم کام نہیں ہو سکتا۔ باقی ہٹس، لائکس، شیئرز، وائرل، ٹرولز۔ ان سب کی ایک منصوبہ بند معاشیات اور حکمت عملی ہے۔ اسے ہوا میں اڑا کر روحانی انسان بننے کے بجائے ٹھوس مطالعہ کرنے کی ضرورت۔

فیس بک پر بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس سے گزرنا آپ کو اچھا لگتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے لوگ بہتر پڑھ لکھ رہے ہیں۔ وہ بدلتی ہوئی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے طریقے سے مسلسل متحرک ہیں۔ آپ کو بس ان کی رفتار، انداز اور ان کی تحریر میں دلچسپی لینا ہے۔ کئی بار ہماری اپنی دنیا اور زندگی اتنی خوبصورت اور منظم نہیں ہوتی جتنی ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ میں اب اسے برا یا غلط نہیں سمجھتا۔ اگر کوئی اس سے گزرتا ہے اور بہتر بننے کی کوشش کرتا ہے تو کیا حرج ہے؟

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments