ہمارے قاتل ، ہمارے ہیرو


یہ سازش کم اور تھیوری زیادہ ہے۔ اور آج کل مارکیٹ میں آنے والی زیادہ تر نئی تھیوریوں کی طرح یہ بھی یوٹیوب کے ذریعے مجھ تک پہنچی۔ ویڈیو ایک گرفتار ہونے والے خودکش بمبار کی تھی لیکن ویڈیو سے زیادہ اس کے نیچے لکھے جانے والے تبصرے ہماری دماغی حالت کا پتہ دیتے تھے۔

(کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گرفتار ہونے والے زیادہ تر خودکش بمبار کم عمر لڑکے ہوتے ہیں جنہوں نے نیا نیا نشہ کرنا شروع کیا ہو۔ حالانکہ میرا خیال تھا کہ نشئی بچے بارود سے دور بھاگتے ہیں)۔ مذکورہ خودکش بمبار سے وہ ہی سوال پوچھے گئے جو ہر ایک ایسے بچے سے پوچھے جاتے ہیں: آپ نے کبھی شادی کرنے کا سوچا؟ شادی کیوں، جب موت کے بعد بہتر حوریں میرا انتظار کر رہی ہیں تو میں ایک کے چکر میں کیوں پڑوں۔ اگر رہا ہوگئے تو کیا کرو گے؟ خودکش حملہ کروں گا۔ آپ کے حملوں میں معصوم بچے بھی مارے جاتے ہیں، ان کے بارے میں کبھی سوچا؟ آپ کو کس نے کہا کہ بچے معصوم ہوتے ہیں۔
ویڈیو کے نیچے کمنٹس والے سیکشن میں کچھ تبصرے ایسے تھے جن کو پڑھ کر مجھے ایسا ڈر لگا جو خودکش بمبار کے بچوں کے بارے میں خیالات سن کر بھی نہیں لگا تھا۔ یہ تبصرے بظاہر کچھ فوجی اور کچھ سویلین حضرات نے کیے تھے۔
\’امیزنگ\’
\’ان لوگوں کا ایمان کتنا پختہ ہے\’
\’کاش یہ اس جذبے کے ساتھ ہندوستان پر بھی حملے کریں اور کشمیر آّزاد کرائیں۔\’

خوفناک حد تک پڑھے لکھے اور پرہیز گار مبصرین آپ کو بتائیں گے کہ یوٹیوب پر بڑھکیں مارنے والے مجاہدین اور ان پر جذباتی تبصرے کرنے والے محض امریکی جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جائے گا کہ ہمارے متوسط طبقے کی وہ بیبیاں جنہوں نے حال ہی میں برقعہ اور بخاری شریف کو دریافت کیا ہے ان کے دلوں کی دھڑکنیں ان مجاہدین کی تقاریر سن کر تیز نہیں ہو جاتیں۔

ہمیں اکثر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سارا مسئلہ مسلم تشخص کا ہے۔ اور ہم پوری دنیا کو اسلام کا اصلی چہرہ دکھانا چاہتے ہیں، لیکن جیسا کہ راقم نے شروع میں عرض کیا یہ محض ایک تھیوری ہے اور ہم یہ معاملہ عمائدین پر چھوڑتے ہیں۔

لیکن ایک ایسے وقت میں جب ہمیں اپنے قاتل اپنے ہیرو لگیں اور اپنے ہیروز سے ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ قتل کرتے رہیں لیکن ذرا دوسرے محلے میں جا کر، تو ان حالات میں ظاہر ہے فلسفیانہ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب جاننے کے لیئے جنرل کیانی کیا پڑھ رہے ہیں؟ اگلے بلاگ میں۔

___________________

یہ تحریر محمد حنیف نے بی بی سی اردو کے لئے فروری 2010 میں لکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments