کنواری لڑکیوں کی تعلیم – بسلسلہ سرسیّد دوویست سالگرہ


\"\"(سر سید کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ وہ تعلیمِ نسواں کے کلّی طور سےخلاف تھے، اور نہیں چاہتے تھے کہ عورتوں میں تعلیم کا عام رواج ہو۔ دراصل ان کی سوچ جداگانہ تھی، جس کا اظہار انھوں نے ایک خط میں سید ممتاز علی سےکیا تھا۔ اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں، لیکن یہ پہلی بار 1898ء میں ممتاز علی صاحب کی کتاب ’حقوقِ نسواں ‘ میں شائع ہوا تھا۔)

*** ***

محبی و مشفقی مولوی ممتاز علی صاحب۔

آپ کا ایک لمبا پرائیویٹ خط کئی دن سے میرے سامنے رکھا ہوا ہے۔ میں اس کےجواب لکھنے کی فرصت ڈھونڈ رہا تھا۔ اس وقت اس کا جواب لکھتا ہوں۔

میری نہایت دلی آرزو ہےکہ عورات کو بھی نہایت عمدہ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جاوے، مگر موجودہ حالت میں کنواری عورتوں کو تعلیم دینا ان پر سخت ظلم کرنا اور ان کی تمام زندگی کو رنج و مصیبت میں مبتلا کردینا ہے۔ کنواری لڑکیاں تمام عمر بے شادی کےبلحاظ حالات کےنہیں رہ سکتیں اور نہ ان کی زندگی بسر ہو سکتی ہے۔ پس ضرور ان کی شادی کرنی ہو گی۔ ہماری قوم کے لڑکوں کی جو ابتر و خراب حالت ہے اور [جو] بد عادتیں اور بدافعال ان کے ہیں اور [جو] بد اخلاق اور بد طریقہ ان کا اپنی جوروٴں کے ساتھ ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ اس وقت تمام اشراف خاندانوں میں ایک لڑکا بھی نیک چلن اور خوش اخلاق، مہذب اور تعلیم یافتہ نہیں نکلنے کا جو اپنی جورو کو ایک انیس [اور] غمگسار سمجھے۔ کل خاندانوں کے لڑکوں کا یہ حال ہے۔ جوروٴں کو لونڈیوں سے بدتر سمجھتے ہیں، اور کوئی بداخلاقی ایسی نہیں جو جوروٴں کے ساتھ نہیں برتتے۔

اب خیال کرو، بےتربیت لڑکی پر یہ مصیبت صرف ایک حصّہ ہے۔ اس کو خود خیالات عمدہ و تہذیب کے نہیں ہیں۔ اس کو اپنے خاوند کی بداخلاقی صرف بقدر ایک حصّہ کےرنج و مصیبت میں رکھتی ہے، اور جبکہ وہ اپنے تمام ھمسروں کا یہ ہی حال دیکھتی ہے تو کسی قدر تسلّی پاتی ہے۔ اور اس کے ماں باپ جب اس کی حمایت کرتےہیں تو اس کے دل کو زیادہ تشفّی ہوتی ہے۔ مگر جب وہ خود شائستہ و مہذّب و تربیت یافتہ اور عالی خیال ہو تو یہ تمام معلومات اس کی روح کو بہت زیادہ رنج دیتے ہیں اور اسکی زندگی بلائےجان ہوجاتی ہے۔ عورات کی تعلیم، قبل مہذب ہونے مردوں کے، نہایت ناموزوں اور عورتوں کے لئےآفتِ بےدرماں ہے۔ یہ ہی باعث ہےکہ میں نےآج تک عورات کی تعلیم میں کچھ نہیں کیا۔

شائستہ و تربیت یافتہ مرد کو ناتربیت یافتہ جوان عورت ملنے سے اس کا کچھ نقصان نہیں ہے۔ وہ اپنی تہذیب کے سبب اپنی جورو سے محبت کرتا ہے اور اسکو مہذب و شائستہ بنا لیتا ہے۔ مگر عورت ایسا نہیں کرسکتی۔ اس وقت دو ایک مثالیں خاندان میں ایسی موجود ہیں کہ انھوں نے اپنی بیویوں کو ایسا پڑھا لکھا لیا ہے اور تعلیم یافتہ کر لیا ہے کہ بلا شبہ وہ عورتیں انیس [و] غم گسار ہونے کے لائق ہوگئی ہیں۔ پس بالفعل عورتوں کو ایسا رکھنا چاہئے کہ اگر ان کے شوہر مہذب ہوں تو انکو مہذب کرسکیں، اور اگر نامہذب ہوں تو ان کی بیویاں بھی ویسی ہی ہوں۔ فقط۔

\"\"

خاکسار، سید احمد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ماخذات: سید ممتاز علی، حقوقِ نسواں، لاہور، 1898۔ شیخ محمد اسمعیل پانی پتی، مکتوبات سر سید، جلد دوم، لاہور، 1985۔

لغت: ’معلومات ‘ بمعنی معلوم باتیں۔

ممتاز علی صاحب کو بھی اس نکتہ کا احساس تھا، چنانچہ جہاں انھوں نے یہ خط نقل کیا ہے وہیں یہ بھی لکھا ہے: ’حال کی تعلیم میں ایک اور سخت قابل اعتراض یہ امر ہے کہ چونکہ لڑکوں میں کافی طور پر تعلیم نہیں پھیلی اس واسطے یہ بات یقینی نہیں ہوتی کہ ہر تعلیم یافتہ لڑکی کے لئےایسا شوہر مل سکےگا یا نہیں جو اسکی تعلیم کا قدردان ہو۔ اگر اس لڑکی کو بدنصیبی سےایسا شوہر مل جائے جو تعلیم نسواں کو پسند کرنےوالا ہی نہیں، یا پورا قدردان نہیں، تو لڑکی سخت بلا میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ۔۔۔ اس مرض کا علاج بجز اس کےکچھ نہیں کہ بچپن سے لڑکوں کی بھی جو رشتہ کے لئے منتخب ہونے کے قابل ہوں تلاش رکھی جائےاور ان کی تربیت اپنی نگرانی میں کرائی جائے، اور رشتہ داری کا دایرہ اپنے خاندان پر ہی محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کو وسیع کیا جائے، اور لڑکوں کی تعلیم میں اور زیادہ کوشش کی جائے۔

ممتاز علی صاحب کی تصنیف، حقوقِ نسواں، کا مسودہ سرسید کی نظر سے گذرا تھا، اور ان کو کوئی بات اس قدر ناگوار لگی تھی کہ مسودہ مصنف کے سامنےہی پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ خیریت گزری کہ جب کھانا لگنے کی خبر پاکر سر سید کمرے سےباہر نکلے تو ممتاز علی صاحب نے موقعہ پا کر وہ پھاڑے ہوے صفحات پھر اپنی تحویل میں کرلئے۔البتہ کتاب، سر سید سے عقیدت اور اپنی سعادت مندی کی بنا پر، ان کی زندگی میں نہیں شائع کی۔ سر سید کو بھی ممتاز علی بہت عزیز تھے، چنانچہ ان کے نام لکھے خطوط کی تعداد سو سے اوپر ہے۔ ممتاز علی (1935-1860) سر سید کے خوردوں میں تھے، لیکن اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے دردمندی انھوں نے براہِ راست سر سید ہی سےحاصل کی تھی۔ اردو کی تاریخ میں ’تہذیبِ نسواں ‘ اور ’پھول ‘ کے ناشر اور دارالاشاعت پنجاب، لاہور، کے بانی کی حیثیت سے ان کا نام لازوال ہے۔ پتہ نہیں حقوق نسواں کےکس اندراج نے سرسیّد کو اس قدر برافروختہ کردیا تھا۔ ہم نے جو ترقیٴ معکوس کی ہےاسے دیکھتے ہوئےتو وہ ایسی تصنیف ہے جس کی دوبارہ اشاعت اب بھی مفید ہوگی۔ (سی۔ ایم۔ نعیم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments