لبرل ازم اور شخصی آزادی کا راستہ روکنا ناممکن ہے


\"\"

عورت کے حقوق مردوں کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ مرد کے ماتحت ہے۔ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے نہ ہو چاہیے۔ شادی شدہ عورت جائیداد کی مالک نہیں ہو سکتی۔ عورت جو کما کر لاتی اس پر اس کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ یہ سب خاوند کی مرضی پر ہے کیونکہ وہ سربراہ ہے۔ عورت تو وہی اچھی ہے جو نیک ہو اور اپنے شوہر کی فرمانبردار ہو۔ عورت کو سیاست نہیں بلکہ گھرداری اور مادریت یعنی بچے پالنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے سوچا ہو گا میں اپنے پیارے پاکستان کے کلچر کی بات کر رہا ہوں۔ نہیں۔ یہ پاکستان نہیں بلکہ کوئی ڈیڑھ دو سو سال پہلے کا امریکہ ہے۔ آپ کو بھی اندازہ ہو گا اب وقت بدل گیا ہے۔ آج امریکہ میں عورت کے حقوق کی صورت حال اور عورت کا مقام اس سے بہت بہتر ہے۔

برطانیہ یا یورپ کے باقی ملکوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ 1884 کی بات ہے۔ برطانیہ کی اس وقت کی پارلیمنٹ میں زرعی مزدور عورتوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے ایک بل پیش ہوا۔ اس بل کے حق میں 135 اور مخالفت میں 271 ووٹ پڑے اور یوں برطانیہ کی زرعی مزدور عورتوں کو اس وقت ووٹ کا حق نہ مل سکا۔ بندہ سوچتا ہے آخر ان 271 مخالف ووٹ ڈالنے والے افراد کو کیا تکلیف تھی کہ وہ زرعی مزدور عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دینا چاہتے تھے۔ ان 271 قانون سازوں نے اس وقت خوشی کے شادیانے بجائے ہوں گے اور بڑے فخر سے سوچا ہو گا کہ ہو انہوں نے اپنے معاشرے کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے والی عورت کو ووٹ کا حق مل جاتا تو وہ اس کا غلط استعمال کرتی اور برطانیہ کی تہس نہس ہو جاتی۔

برطانیہ یا امریکہ جہاں اس وقت عورتوں کو قانونا مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں یہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ اس پر لوگوں نے بہت سوچا محنت کی، جدوجہد کی، تحریکیں چلائیں۔ جیلیں بھگتیں، ٹارچر برداشت کیا، جانوں کے نذرانے پیش کیے اور پھر صورت حال بہتر ہوئی اور وہ بھی آہستہ آہستہ۔ انسانی کے درمیان برابری اور شخصی آزادی کے دشمن آہستہ آہستہ شکست کھاتے گئے۔ انسانیت فتح یاب ہوتی گئی۔

برطانیہ میں عورت کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہی لے لیں۔ پہلے پہل جب بات شروع ہوئی تو بہت سوں کے لئے یہ ایک ناقابل فہم مطالبہ تھا۔ عورتوں کا کیا کام ووٹ کے معاملے پر۔ 1880 میں مہم نے کافی زور پکڑا تو کہیں 1928 میں جا کر برطانیہ کی عورت کو ووٹ کا حق ملا اور وہ بھی یک دم نہیں مل گیا بلکہ صورت حال قدم بہ قدم بہتر ہوئی۔

جب خواتین کے ووٹ ڈالنے کے حق کا مطالبہ زور پکڑتا تو حکومت کچھ رعایت کر دیتی۔ مثلاً وہ عورتیں ووٹ ڈال سکتی ہیں جو اتنی جائیداد کی مالک ہوں۔ کچھ عرصہ بعد گھر کی مالک عورتوں کو بھی یہ حق مل گیا۔ پھر کہا تیس سال سے زیادہ عمر کی یونیورسٹی ڈگری ہولڈرز خواتین ووٹ ڈال سکتی ہیں اور پھر کہیں 1928 میں جا کر عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق مردوں کے برابر دیا گیا۔ اکیس سال یا اس سے بڑی عمر کی ہر عورت کو ووٹ کا حق مل گیا۔

نئی سوچ، انصاف، برابری اور لبرل ازم کا راستہ روکنے کی کوشش تو ہر دور میں ہوتی رہی ہے مگر وہ ہمیشہ ناکام ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی رجعت پسند اپنے ان دیکھے خوفوں کے کی وجہ سے تاریخ سے کبھی سیکھ نہیں پاتے کہ اگر اب تک کوئی بھی انسانی آزادی کا راستہ روک نہیں سکا تو اب وہ کیسے روک پائیں گے۔

انسانی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ طاقتور اشرافیہ ہمیشہ سے ترقی اور انسانی آزادی کی مخالفت میں مصروف رہی اور ترقی کے آگے بڑے بڑے بند لگانے کا سوچتی رہی مگر وہ اسے روک نہ سکی۔

جمہوریت کو روکنے کی کون سی کوشش نہیں کی گئی لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ میدان پر میدان مارتی جا رہی ہے۔

اگر کوئی ترقی اور شخصی آزادی کا راستہ روک پاتا تو ابھی تک اس دنیا کے سارے ممالک میں بادشاہت ہوتی، غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت ابھی تک جاری ہوتی اور اس کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا۔ apartheid سے ابھی تک لوگوں کی جاں نہ چھوٹی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس لئے سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انسانوں کے درمیاں رنگ، نسل، جنس یا جنسی رجہان اور مذہب کی بنیاد پر تفریق اور امتیاز پہلے سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی شدت کم ہو رہی ہے اور دنیا کے کچھ علاقے بھی اس سے نکلتے جا رہے ہیں۔ یہ عارضی ہے اور اس نے شکست کھانی ہے۔ شخصی آزادی پر پابندیوں کی شدت کم ہو رہی ہے اور باقی ماندہ پابندیوں کو بھی کوئی طاقت بچا نہیں پائے گی۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments