مشروم: وادی تیراہ کے وہ کسان جنھوں نے بھنگ اور چرس چھوڑ کر ایک منافع بخش فصل کی کاشت شروع کی

اسلام گل آفریدی - صحافی


بھنگ سے پودا
بھنگ سے پودا
صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی دور افتادہ وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ خان محمد کی کمائی کا واحد ذریعہ معاش بھنگ کی کاشت اور اُس سے حاصل ہونے والی چرس رہا ہے۔ یہ ایک غیرقانونی کاروبار تھا جو پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں کے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے تک عروج پر رہا۔

قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے اور اس کے نتیجے میں یہاں پاکستانی اداروں اور قانون کی علملداری بڑھنے کے بعد اب خان محمد کے لیے اس کاروبار کو جاری رکھنا اتنا آسان نہیں رہا۔

مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ ’ایک در بند تو سو در کُھلے۔‘ یہی معاملہ خان محمد کے ساتھ بھی ہوا۔

بڑھتی مشکلات کے پیش نظر گذشتہ برس خان محمد نے اپنے اس خاندانی کاروبار کو خیرآباد کہنے کا فیصلہ کیا اور متبادل روزگار کا ذریعہ اختیار کر لیا۔ بھنگ اور پھر اس سے حاصل ہونے والی چرس سے جہاں آمدنی بہت کم ہوتی جا رہی تھی وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سختیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔

مگر مقامی لوگوں میں یہ احساس اس سے پہلے سے جڑیں پکڑتا جا رہا تھا۔ خاص طور پر اس وقت جب پہلی بار انھیں ایک فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے اور دوبارہ اپنے آبائی علاقے میں واپسی پر ان کے لیے بہت کچھ بدل چکا تھا۔

مقامی نوجوان اس نوعیت کے درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے تو اُن کی تنظیم میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا کے پروفیسر زیارت گل بھی شامل ہو گئے، جنھوں نے نوجوانوں کو متبادل روزگار کی راہ دکھائی۔

یوں خان محمد نے دو لاکھ سے زائد آبادی والی وادی تیراہ میں دیگر متعدد مقامی کسانوں کی طرح ایک ایسا متبادل کاروبار اختیار کر لیا جو بھنگ اور چرس سے ناصرف کہیں زیادہ منافع بخش ثابت ہوا بلکہ یہ قانونی بھی تھا۔

خان محمد کی نئے شعبے میں کامیابی کے ذکر سے قبل کچھ مقامی نوجوانوں پر مشتمل تنظیم کی آگاہی مہم پر نظر دوڑاتے ہیں۔

چرس

فائل فوٹو

مقامی کاشتکاروں کو متبادل روزگار کا خیال کیسے آیا؟

وادی کے چند نوجوان ایسے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے تھے جو کہ کم خرچ اور زیادہ آمدن دینے کے ساتھ ساتھ قانونی طور پر جائز بھی ہو۔

اس مقصد کے لیے وادی تیراہ سے تعلق رکھنے والے 30 برس کے ایک مقامی کاشتکار فضل ربی نے دیگر نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا اور پھر اُن کی ملاقات پروفیسر زیارت گل سے بھی ہو گئی، جن کی کوششوں سے نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار فوڈ اینڈ ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی (این آئی ایف اے) نے ان نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام کا اہتمام کیا۔

اس سائنسی تحقیق کے ادارے کی تکینکی مدد سے گذشتہ برس جنوری میں مشروم کی کاشت کے حوالے سے تربیتی پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں 30 سے زائد مقامی کاشتکاروں نے شرکت کی۔

فضل ربی بھی اس پروگرام میں شریک ہوئے، جنھوں نے تربیت کی روشنی میں نہ صرف گھر میں مشروم کاشت کی بلکہ اس کے ساتھ انھوں نے مشروم کی پیدوار بڑھانے کے لیے ’تیراہ مشروم کلب‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی، جس میں وادی کے ساٹھ سے زیادہ نوجوان شامل ہو گئے۔

مشروم

وادی تیراہ میں مشروم کی کاشت

فضل ربی کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن سے نقل مکانی کے ایک سال بعد جب بے گھر افراد اپنے علاقوں میں واپس آئے تو لوگ کافی زیادہ مالی مسائل کا شکار تھے۔ دوسری جانب ماضی کے مقابلے میں زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والی بھنگ کی فصل کی شکل میں آمدن میں کافی کمی واقعی ہوئی، جس سے ان علاقوں میں نوجوان بڑی تعداد میں بے روزگار ہوئی۔

ان کو کمائی کے لیے نئے راستوں کی تلاش تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ مقامی عسکری حکام کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ مشروم کی کاشت کے حوالے سے تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے، جس پر جلد عملدرآمد ہوا اور تربیت مکمل کرنے والے کئی نوجوانوں نے اس بنیاد پر مشروم کی پہلی بار کاشت کی، جس کے کافی اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔

محکمہ زراعت خیبر کے مطابق وادی تیراہ میں 32 ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت ہے، جن میں 80 فیصد پر بھنگ، چھ فیصد پر سبزی جبکہ باقی پر اجناس اور باغات موجود ہیں۔ محکمے نے سال 2016 اور 2017 میں تجرباتی بنیاد پر تیراہ میں زعفران کاشت کی تھی، تاہم مختلف مسائل کی بنا پر بڑی کامیابی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ منصوبے کو ختم کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں منشیات کا دھندا عروج پر: ’جب سے طالبان نے ملک آزاد کیا، ہم بھی آزاد ہو گئے‘

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر منشیات کی ’بڑھتی ہوئی سمگلنگ‘، وجہ کیا ہے؟

کراچی دنیا بھر میں چرس پینے والوں کا دوسرا بڑا شہر

پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن کے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے قائم ادارہ نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار فوڈ اینڈ ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی (این آئی ایف اے) ملک میں مشروم کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

ڈاکٹر محمد ابراہیم این آئی ایف اے میں مشروم پروگرام کے انچارچ ہیں۔

مشروم

خان محمد کمرے میں مشروم کی کاشت کرتے ہوئے

انھوں نے تیراہ میں کاشتکاروں کو مشروم کی کاشت سے قبل تربیت دی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ وادی میں نہ صرف مشروم کی کاشت کے لیے بہترین آب ہوا موجود ہے بلکہ مارچ اور اپریل میں موسم سرما کی برف پگھلنے کے بعد بڑی مقدار میں قدرتی طورپر مختلف اقسام کے مشروم پیدا ہوتے ہیں، جن کو مقامی لوگ ’کڑوچک‘ کہتے ہیں جبکہ اس کا سائنسی نام ’مورل‘ ہے جو مشروم کی سب سے مہنگی قسم ہے۔

مشروم جنھیں ’کھمبیاں‘ بھی کہا جاتا ہے ایک خود رو پودا ہے مگر اس کی کئی اقسام کھانے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ خاص بیج سے کاشت کی جانے والی مشروم کی اقسام خوراک کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد ابراہیم کے مطابق اس قسم کی مشروم کی پیدوار بڑھانے کے لیے آج تک باقاعدہ کوئی ٹھوس تحقیق سامنے نہیں آئی ہے۔ تاہم کچھ مقامی لوگ ایسے ہیں، جنھوں نے اس کے روایتی طریقے ڈھونڈ نکالے ہیں لیکن زیادہ آمدن کے حصول کی وجہ سے کسی کو بتاتے نہیں ہیں۔

مشروم کے مقامی نرخ کیا ہیں؟

مشروم

کاشتکار ظفر خان کے بھائی عمرخان نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر مشروم کے حوالے سے اشتہار جاری کیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کے لیے یہ نئی چیز تھی اور وہ ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھتے رہے۔ بعض نے تو اسے جھوٹ قرار دیا تاہم اس کے باجود بھی اُن کو ایک مقامی شخص کی طرف سے پانچ کلو کا آرڈر ملا، جس کے لیے اُنھوں نے ایک باغ سے مشروم جمع کیں۔

ظفرخان نے کہا کہ ابتدا میں فی کلو چھ سو تک قیمت رکھی گئی ہے جوکہ پشاور اور دیگر شہروں کی نسبت کافی کم ہے کیونکہ یہاں کے مقامی لوگ زیادہ تر غریب ہیں۔

خیبر خان آفریدی ضلع کے بڑے تجارتی مرکز باڑہ میں پچھلے 20 برسوں سے سبزی بیچ رہے ہیں تاہم ان کے پاس پہلی بار دکان میں مشروم فروخت کے لیے موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مقامی لوگ اس کے بارے میں کافی پوچھتے ہیں اور کچھ لوگ تو پوچھے بغیر خرید لیتے ہیں۔

اُن کے مطابق یہ فی کلو چھ سے سات سو روپے فروخت کی جاتی ہے۔

تیراہ مزید کس قسم کی فصلوں کی کاشت کے لیے موزوں ہے؟

مشروم

خیبر پختونخوا حکومت نے تین ضم اضلاع خیبر، اورکزئی اور کرم میں بھنگ کے منفی استعمال روکنے اور قانونی کاشت کے لیے جون 2021 میں پشاور یونیورسٹی شعبہ فارمیسی کی مدد سے سروے کا آغاز کیا۔

اس شعبے کے پروفیسر فضل ناصر منصوبے کے نگران تھے۔

اُن کے بقول تمام ترمعلومات اکھٹی کرنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا گیا اور ابتدائی اندازے کے مطابق تینوں اضلاع میں 200 مربع کلومیٹر یعنی 49 ہزار ایکڑ زمین پر بھنگ کی کاشت ہوتی ہے، جس سے سالانہ پچاس لاکھ کلو گرام چرس حاصل کی جاتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں کاشت کی جانے والی بھنگ کی قسم میں نشے کا عنصر 42 فیصد ہے جبکہ بیرونی دنیا میں کاشت ہونے والے بیج میں یہ مقدار اعشاریہ تین فیصد ہوتی ہے۔ اُن کے مطابق حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ نشے کے علاوہ بھنگ سے فائدہ حاصل ہونے کے لیے باہر سے نئے بیج درآمد کر کے انھیں کاشتکاروں میں مفت تقسیم کر دیا جائے۔

یہ سروے رپورٹ چھ مہینے میں مکمل ہوئی اور دسمبر 2021 میں ابتدائی رپورٹ صوبائی حکومت کو جمع کروائی گئی۔

اس عمل پر ایک کروڑ 43 لاکھ خرچ کیے گئے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ وادی تیراہ میں مشروم، زعفران اور ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کے لیے بھی بہتر آب ہوا موجود ہے۔

مقامی کاشتکار محمد عمر کا مشروم کاشت کا تجربہ کیسا رہا؟

محمد عمر معیشت کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے چھوٹے بھائی ظفر کے ساتھ گذشتہ ایک سال سے اس کوشش میں ہیں کہ ایسی فصل کو کاشت کریں جس کی نہ صرف آمدن زیادہ ہو بلکہ اُن کے علاقے سے چرس کی پیداوار جیسے بدنما داغ بھی دُھل سکیں۔

اُنھوں نے گھر کے ایک بڑے کمرے میں مشروم کے چھ سو بیگ پہلی بار کاشت کیے۔

محمد عمر کا کہنا ہے تین چار سال پہلے ایک کلو چرس ساٹھ سے ستر ہزار روہے کلو بیچی جاتی تھی تاہم اب دس سے بارہ ہزارتک فی کلو ریٹ ہے جوکہ بہت کم ہے۔ اُن کے مطابق علاقے میں بے روزگاری، معاشی اور سماجی برائیاں کافی بڑھ چکی ہیں تاہم مشروم اور دیگر کئی قیمتی اور نقد آور فصلوں کی کاشت نے ان مسائل کا حل ممکن بنا دیا ہے۔

40 برس سے بھنگ اور چرس کے کاروبار سے جڑے ہوئے خان محمد نے بھی گھر کے ایک کمرے میں تین سو بیگ میں مشروم کی کاشت کی، جس سے اُن کے گھر کے روزمرہ کے اخراجات کئی مہینوں تک پورے ہوئے۔

مشروم کیسے کاشت کی جاتی ہے؟

مشروم

ڈاکٹر ابرہیم کے مطابق اویسٹر مشروم کے کاشت کا طریقہ انتہائی سادہ ہے، جس میں گندم کا بھوسہ، پلاسٹک بیگز، خاص حالت میں چونا، چوکر اور مخصوص ڈرم کی ضرورت ہوتی ہے۔

سب سے پہلے بھوسے کو پانی کی مناسب مقدار سے دھو کر اس کا گند صاف کر لیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے

’کینابس‘: پاکستان میں ’بچوں‘ کا نشہ؟

’شہروں میں زیرِ زمین کھیتوں کا رواج، خوراک کی کمی کا حل ہے‘

بھنگ والی ٹھنڈائی: ’بابا کا پرساد‘ جو منھ میٹھا کر کے میلوں میں جان پھونک دیتا ہے

اس کے بعد چونا اور چوکر اس میں ملا کر پلاسٹک سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ دوسرے دن پانچ کلو کے پلاسٹک بیگز اس سے بھر کر اور لوہے کے مخصوص ڈرم میں پانی مناسب مقدار میں ڈال کر اُس کے اُوپر ایک سٹینڈ رکھ کر نیچے سے آگ جلائی جاتی ہے۔

اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد بیگز کو نکال کر باقی بیگز کو رکھ دیں اور ان کو ٹھنڈا ہونے دیں۔

جب یہ ٹھنڈا ہوجائے تو ایک کلو سپام (مشروم کا بیج) کو تقریباً 25 مختلف بیگ میں تقسیم کریں اور بیگز کے منھ بند کر کے ایک کمرے میں رسیوں کی مدد سے چھت کے ساتھ لٹکا دیں۔

بیگ میں موجود سپام پندرہ سے بیس دن میں سفید جبکہ 28 سے 30 دن میں مشروم کے پھول نکلنا شروع ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر کے مطابق پھول نکلنے کا مرحلہ انتہائی اہم ہوتا ہے اور اگر کاشتکار اس مرحلے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو نہ صرف پھول نکلنا بند ہو جاتے ہیں بلکہ پوری محنت ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

اُن کے بقول اس مرحلے میں سب سے اہم کمرے کا درجہ حرارت اور ہوا میں نمی کی مقدار یعنی 80 سے 90 فیصد ہونا انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ نمی کی مقدار پورا کرنے کے لیے کمرے کے فرش پر پانی کی مناسب مقدار ڈالی جاتی ہے یا پمپ کی مدد سے بیگز پر سپرے کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments