بجلی، تیل کی قیمتوں میں کمی: وزیر اعظم عمران خان کے ریلیف پیکج کے لیے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


بجلی، تیل کی قیمتوں میں کمی
بجلی، گیس کے آسمان کو چھوتے بل اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کے رجحان کے دوران پاکستانی عوام کے لیے پیر کی رات وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے قیمتوں میں کمی کا اعلان ایک خوشگوار حیرانی کا باعث تھا۔

وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں پٹرول، ڈیزل کی قیمت 10 روپے اور بجلی کے نرخوں میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کا اعلان تو کیا ہی، مگر ساتھ ہی یہ نوید بھی سُنا دی کہ یہ اعلان آئندہ بجٹ تک نافذ العمل رہے گا۔

عوام کی حیرانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب اوگرا نے عالمی منڈی میں اضافے کے بعد ملک میں بھی تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے اضافے کا مطالبہ کیا تھا، جسے حکومت نے مسترد کر دیا۔

سیاسی تجزیہ کار اس اعلان کو وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ تحریک عدم اعتماد کے جواب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز ہی حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف کراچی سے لانگ مارچ کا آغاز بھی کر چکی ہے جس کا اختتام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہو گا۔

وزیر اعظم کے اعلان کی وجہ سیاسی مشکلات ہوں یا پھر عوام کی امیدیں، یہ سوال بہرصورت اپنی جگہ موجود ہے کہ اعلان کردہ ریلیف پیکج کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا خسارہ کہاں سے پورا ہو گا جس کا کچھ حصہ خود حکومت کو ادا کرنا ہو گا؟

وزیر اعظم عمران خان

واضح رہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ہی 1371 ارب روپے کے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا جسے پورا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم کی جانب سے بجلی کی قیمت میں پانچ روپے فی یونٹ کمی بھی اس وقت کی گئی ہے جب بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2476 ارب روپے تک جا پہنچا ہے اور حکومت کو گردشی قرضے میں مزید اضافے کو روکنے اور اس کے خاتمے کے لیے بجلی کے نرخ بڑھانا پڑے۔

قیمتوں میں کمی اور بڑھتا ہوا مالی خسارہ

عالمی منڈی کا جائزہ لیں تو اس وقت روس اور یوکرین کی جنگ نے ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ دونوں ہی ملک دنیا میں توانائی کی سپلائی چین کا اہم حصہ ہیں اور اسی وجہ سے یوکرین میں روسی افواج کے داخلے کے ساتھ ہی عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں 105 ڈالر فی بیرل کی سطح تک چلی گئی تھیں۔

اس رجحان میں گذشتہ ایک دو روز میں تھوڑی سی کمی ہوئی تاہم ابھی بھی یہ قیمتیں سو ڈالر فی بیرل کی سطح پر موجود ہیں۔

گذشتہ روز وزیر اعظم پاکستان نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم ان کی حکومت نے پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں مزید اضافہ نہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے فی لیٹر کمی اور بجلی کی قیمتوں میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا گیا ہے اور نئی قیمتوں کا اطلاق اگلے مالی سال کے بجٹ پیش ہونے تک رہے گا جو عموماً جون میں پیش کیا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب ملک کا مالی خسارہ گذشتہ مالی سال میں 1371 ارب تک جا پہنچا ہے جو ملکی آمدن اور اخراجات کا خسارہ ہوتا ہے۔

اسی طرح ملک کے جاری کھاتوں کا خسارہ بھی رواں برس جنوری میں تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا جو رواں مالی سال کے اختتام تک 20 ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو تیل کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے اپنی بلند ترین سطح کی جانب گامزن ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اُلٹی گنتی کس کے لیے؟ عاصمہ شیرازی کا کالم

پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے کمی، بجلی فی یونٹ پانچ روپے سستی کرنے کا اعلان

پیٹرول مزید 12 روپے مہنگا: عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی کیا صورتحال ہے؟

تیل کی قیمتوں میں کمی حکومت کی جیب پر بھاری پڑے گی؟

پاکستان میں حکومت نے خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سیلز ٹیکس کی شرح پہلے ہی صفر کر رکھی ہے اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بھی بجٹ کے اہداف کے مقابلے میں کم رہی ہے تاکہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہ ہو۔

پی ڈی ایل کے تحت ٹیکس کی وصولی آئی ایم ایف شرائط کا حصہ ہے جس کے تحت حکومت نے فروری کے مہینے کے شروع میں ایک ارب ڈالر کی قسط وصول کی تھی تاکہ ملک کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو مدد فراہم کی جا سکے۔

پاکستان میں تیل کے شعبے کے تخمینوں کے مطابق موجودہ عالمی قیمتوں کے پیش نظر پٹرول کی قیمت میں ساڑھے نو روپے سے زیادہ اور ڈیزل کی قیمت میں ساڑھے آٹھ روپے سے زیادہ اضافہ ہونا تھا۔

تاہم وزیر اعظم نے اس کے برعکس دونوں کی قیمتوں میں دس روپے کمی کا اعلان کر دیا۔ جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرنے پڑیں گے۔

یعنی اسے سبسڈی کی صورت میں رقم ادا کرنی پڑے گی جو مالی خسارے میں اضافہ کرتی ہے اور حکومت کو اسے پورا کرنے کے لیے بیرونی اور اندرونی قرضہ لینا پڑتا ہے۔

’حکومت نے پورا ہوم ورک کیا ہے‘

وزیر اعظم کی جانب سے پٹرول ، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر معیشت خرم شہزاد نے کہا کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت سبسڈی کے لیے رقم کہاں سے حاصل کرے گی جب کہ اسے اس وقت سات سے آٹھ فیصد بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سبسڈی دینا مسئلے کا حل نہیں۔ ’ملک کو اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جا سکے جس کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی درکار ہے۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے تاہم حکومت کی جانب سے ریلیف پیکج اور اس کے لیے درکار مالی وسائل کے سلسلے میں بتایا کہ ’اس بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی بات نہیں کیونکہ حکومت نے اس کے لیے متبادل ذرائع ڈھونڈ لیے ہیں۔‘

انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ اس ریلیف پیکج کی تیاری میں مشاورتی اجلاسوں کا حصہ رہے اور حکومت نے اس سلسلے میں پورا ہوم ورک کیا ہے۔

’جو بھی مالی وسائل درکار ہوں گے، حکومت کے سوشل سکیورٹی منصوبوں کے ذریعے پورے کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ٹیکس آمدن میں اضافے کو بھی اس سلسلے میں استعمال کیا جائے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ حکومت نے اب تک بجٹ میں رکھے گئے اہداف سے 260 ارب سے زیادہ کا ٹیکس جمع کیا ہے جسے پٹرول، ڈیزل اور بجلی پر سبسڈی دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان میں محصولات جمع کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جاری کردہ عبوری اعداد و شمار کے مطابق اس سال جولائی سے فروری میں بجٹ کے اہداف سے 268 ارب سے زیادہ کا ٹیکس جمع کیا گیا۔

ڈاکٹر اشفاق نے یہ بھی کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر پی ڈی ایل بھی نہیں بڑھے گا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت پی ڈی ایل بڑھانا لازمی نہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام نے معیشت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور اب پی ڈی ایل نہیں بڑھے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف پروگرام سے نکل سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ سبسڈی دینے کی وجہ سے ملک کا مالی خسارہ اور بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ بڑھے گا تو ڈاکٹر اشفاق نے جواب دیا کہ ’اکنامک ایڈوائزی گروپ نے اس سلسلے میں پورا ہوم ورک کیا ہے اور پاکستان کو کوئی خاص مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔‘

حکومتی ریلیف پیکج: کریڈٹ کس کا؟

سیاسی اُمور کے ماہر اور سینیئر صحافی حامد میر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ریلیف پیکج کا کریڈٹ حزب اختلاف کی جماعتوں کو جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لانگ مارچ کا آغاز کیا اور مہنگائی کی بات کی جس کا مطلب ہے حکومت دباؤ کا شکار ہے۔

حامد میر نے کہا کہ اگرچہ اس وقت حکومت کی مالی حالت ریلیف دینے کی متحمل نہیں تاہم بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کی وجہ سے وہ مجبور ہوئی۔

انھوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کیسا ریلیف ہے کہ حکومت نے دو ہفتے پہلے تیل کی قیمتوں میں 12 روپے کا اضافہ کیا تھا اور اب 10 روپے کم کر رہی ہے۔

سیای امور کے تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے تین چار مہینوں میں عوام کی جانب سے حکومت مخالف تاثر اُبھرا ہے جو اس کی مقبولیت پر اثرانداز ہوئی ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ اس حکومت کی ایک انفرادیت ہے کہ اس کا پیسہ غریب کی جیب میں جا رہا ہے جو احساس پروگرام، کامیاب جوان پروگرام اور دوسرے سبسڈی کے منصوبوں سے ظاہر ہے۔ انھوں نے کہا یہ حکومت کم از کم لوگوں کی مشکلات کے بارے میں احساس رکھتی ہے۔

شہزاد چوہدری نے اس امکان کو مسترد کیا کہ حکومت نے یہ اقدام حزب اختلاف کے دباؤ کی وجہ سے اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ’اپوزیشن تو خود بکھری ہوئی ہے، 10-15 دن سے عدم اعتماد کا سُن رہے ہیں تاہم ابھی تک پیش نہیں ہو سکی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments