خوشبو میں بسا ناسٹیلجیا


کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ قلم کو قرطاس کی روشوں پر رواں رکھنے والا خیالات کا ایندھن قلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایندھن نہ ملے تو دو چار جھٹکے کھا کر قلم کی گاڑی رک جاتی ہے، لاکھ دھکے لگاؤ، سٹارٹ نہیں ہوتی۔ گزشتہ دنوں کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش رہا اور کئی ہفتے آپ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ یہ دورانیہ ممکن ہے مزید طویل ہوجاتا مگر پھر ایک بھولی بسری خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی اور تعطیل پر گئے خیالات واپس آ گئے۔ وقت کا جیسے وجود ہی نہ رہا۔ تخیل نے بہت دور، بہت پیچھے رہ جانے والے مناظر کی فلمیں نکال کر جھاڑیں اور یاد کے پروجیکٹر پر چڑھا دیں۔

تخیل کے آگے وقت کی یوں بھی پیش نہیں جاتی۔ وقت کا زور صرف مادے پر چلتا ہے۔ اس بے کراں کائنات میں جہاں تک مادہ ہے اور خلا، بس وہیں تک وقت کی حکمرانی ہے۔ اگر اس سے پرے نکل سکیں تو وقت نام کی کوئی شے نہیں، کچھ ہے تو بس ابدیت کا پھیلاؤ۔ آپ اور میں اس مادی کثیف جسم کی وجہ سے لمحہ موجود میں رہنے پر مجبور ہیں۔ نہ گزرے کل میں جا سکتے ہیں نہ آنے والے کل میں۔ تخیل مگر آزاد ہے کہ غیر مرئی ہے اور غیر مادی، جہاں چاہے گھوما کرتا ہے۔ گزرے وقتوں کی سیر بھی دیکھتا ہے اور کبھی آنے والے وقت کی۔

وہ ایک زندگی جو آنے والی ہے، وہ جس پر پردہ (برزخ) پڑا ہے، وہاں چونکہ ہم مادے کی یہ کثافت اتار کر پہنچیں گے سو وقت کا وہاں کوئی گزر نہ ہو گا۔ اسی لئے اسے دائمی زندگی کہا گیا ہے۔ واقعات کو آغاز اور انجام کی بیچ مقید کرنے والا وقت ہی تو ہے۔ ام الواقعات جو وقوعہ ہے وہ بگ بینگ سے شروع ہوا جب ایک نقطہ پھٹا اور مادے کے ساتھ ساتھ وقت اور خلا کا ظہور ہوا۔ یہ واقعہ بگ کرنچ پر ختم ہو گا جب یہ ساری کہکشائیں پھر سے مل کر ایک نقطے میں سما جائیں گی۔ نہ وقت ہو گا، نہ خلا، نہ مادہ۔ یہ انسان کا اب تک کا دریافت شدہ یا وضع کردہ علم ہے، کل کو بدل بھی سکتا ہے کیونکہ حتمی سچ تو بہرحال انسانی علم کی دسترس میں نہیں۔ بہرحال بگ بینگ اور بگ کرنچ کے درمیان وقت کی حکمرانی ہے۔ یہ جو چاہے من مانیاں کرتا پھرے۔ تاہم خیال پر اس کی دسترس نہیں۔

میں گزارش کر رہا تھا کہ ایک خوشبو تھی کہ جو گئے وقتوں میں لئے پھری۔ زہرا نے نیٹ پر کسی ٹوٹکے کی ترکیب دیکھی جس میں تبت سنو کریم بھی استعمال ہونا تھی۔ میں نے لا دی۔ اگلے روز صبح دفتر کے لئے تیار ہو رہا تھا کہ یہ کریم پڑی نظر آئی۔ میں نے تھوڑی نکال کے ہتھیلیوں پر رگڑی اور چہرے پر ملنے لگا۔ کریم کی خوشبو کا نتھنوں سے ٹکرانا تھا کہ میرے گرد و پیش سبھی کچھ جیسے جھلملا کے کچھ دیر کو تحلیل ہو گیا۔ ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور اس کی ماں۔ دونوں نے گویا زمین و آسمان کے درمیاں سارا مکاں گھیر لیا تھا۔

یادش بخیر! وہ بچہ جو اب ایک ادھیڑ عمر شخص ہے، اس کی ماں دیہات کی اک سیدھی سادی خاتون تھی۔ شادی کے بعد کراچی میں رہی، پشاور اور پھر بالآخر ملتان میں قیام پذیر ہو گئی مگر سادگی والی خو نہ چھوڑی۔ شاذ ہی کبھی سرخی پاؤڈر لگاتے دیکھا۔ کسی شادی کی تیاری ہو یا میکے جانے کی، بس ایک تبت سنو لگایا کرتی تھی۔ بچوں کی تیاری میں بھی بڑے سے بڑا اہتمام یہی ایک کریم تھی۔

گرد و پیش تحلیل ہوا تو ایک صحن کا منظر ابھرا جس کے مغربی سمت برآمدہ تھا اور اس سے پیچھے کمروں کی قطار۔ جنوبی سمت باورچی خانہ، اس کے پہلو میں کپڑے دھونے کا کھرا اور آگے غسل خانہ۔ کھرے سے ذرا ہٹ کر ایک بارہ چودہ فٹ گہرا چورس کنواں جس میں نیچے جا کے ڈونکی پمپ لگا ہے جو زمین سے پانی کھینچ کر غسل خانے کے سر پہ بنی ٹینکی میں پہنچاتا ہے۔ مشرقی سمت سٹور ہے جبکہ شمال۔ کی جانب ایک چھوٹا سا سبزہ زار۔

ماں نے اس پانچ چھے سالہ بچے کو نہلایا ہے۔ پھر صحن میں دھری ایک چارپائی پر لا کھڑا کیا ہے۔ تولیے سے اس کے بال جتنے خشک ہو سکے کیے ہیں۔ سفید رنگ کا ایک کڑھا ہوا کرتا اور سفید ہی پاجامہ پہنایا ہے اور پھر سرسوں کا تیل اپنے چلو میں بھر کے دونوں ہتھیلیوں کو باہم رگڑ کر تیل پھیلایا ہے اور بچے کے نم بالوں کی اچھی طرح مالش کر دی ہے۔ پھر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلیوں کے بیچ بچے کے دونوں رخسار تھام کر کہ سر نہ ہلائے، اس کے بالوں میں کنگھی دی ہے۔

بال سنور چکے ہیں تو پھر ماں نے اپنے تیل والے ہاتھ تولیے سے صاف کر کے تبت سنو کی شیشی سے تھوڑی کریم نکال کر اپنی ہتھیلیوں پر رگڑ کر بچے کے چہرے پر اچھی طرح سے ملی ہے۔ بچہ تیار ہو گیا ہے تو اسے مسکراتی نظروں سے ایک بار دیکھا ہے۔ اس تیاری کے بعد بچے کے حسن میں جو ”اضافہ“ ہوا ہے تو ماں جیسے نظروں ہی نظروں میں واری قربان ہو رہی ہے۔ پھر وہ بچے کی گال پر ہلکا سا پیار کرتی ہے کہ ”میک اپ“ خراب نہ ہو جائے۔ ماں کے ہونٹ بچے کے گال سے ہٹتے ہیں تو کائنات درہم برہم ہوجاتی ہے۔ پیار کے بغیر کائنات کہاں قائم رہتی ہے بھلا۔ گرد و پیش کے مناظر واپس آ جاتے ہیں۔ ماں وقت کا چوبیسواں برس اوڑھے قبرستان میں سوئی ہے اور وہ بچہ شیشے کے آگے کھڑا ادھیڑ عمر شخص بن گیا ہے۔

ناسٹیلجیا انسان کا ازلی سنگی ہے۔ کسی خوشبو سے، کسی منظر سے، سماعتوں سے ٹکرانے والی کسی صوتی لہر سے یا زبان کے ٹیسٹ بڈز کو چھونے والے کسی ذائقے سے اچانک جاگ اٹھتا ہے۔ کبھی کوئی لمس اسے بیدار کر دیتا ہے۔ شرط ہے تو بس ایک، بائیں پسلیوں کے پیچھے دھڑکتا دل انسان کا ہونا چاہیے، عام جاندار ناسٹیلجیا کے اثر میں نہیں آتے۔ بے شمار یادیں ہیں میری اپنی مرحومہ ماں کے ساتھ مگر تبت سنو کی خوشبو سے صرف یہی منظر پتہ نہیں کیوں پوری جزئیات کے ساتھ یادوں کے پردے پر رواں ہوا۔ مجھے لگا دنیا بھر کی خوشبویات اکٹھی ہوجائیں تو بھی اس ایک خوشبو کی متبادل نہیں ہو سکتیں۔ شاید اس لئے کہ میری ماں کی ہتھیلیوں کا لمس اس خوشبو میں چھپا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments