گھاتیں اور وارداتیں


وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ ہے نہ اسٹیبلشمنٹ سے تاہم اسٹیبلشمنٹ کی ایک طاقتورشخصیت پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ اسی لیے وہ آج کل اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے دن رات سوچ بچار کر رہے ہیں۔ مسئلہ حل ہوگیا تو اپوزیشن ناکام اور اگر بڑھ گیا تو عمران خان حکومت ختم ہو جائے گی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ وہ حال ہی میں اپنے ایک پرانے مگر بااعتماد دوست کے گھر چلے گئے اور خوب راز نیاز ہوا۔ ان کا یہ دوست کسی زمانے میں جنرل مشرف کا بھی خاص تھا۔ یہ ذاتی طور پر ایک شریف اور پڑھا لکھا آدمی ہے جو اقتدارکی نزاکتوں کو خوب سمجھتا ہے۔ عمران خان کے دوست سےملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کیا وزیراعظم پر اعتماد ہیں؟ جواب آیا عمران غیرمعمولی طور پر پراعتماد ہے۔ وجہ پوچھی تو انہوں نےکہا کہ’’وہ سمجھتا ہے کہ کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ خدا میرے ساتھ ہے‘‘۔ ممکن ہے عمران خان ایسا ہی سمجھتے ہوں مگرحقیقت یہ ہے کہ اب ان کی حکومت کے خلاف کھیل شروع ہوچکا ہے مگرشاید انجام کا علم کھیل شروع کرنے والوں کو بھی نہیں۔ کھیل کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف اسلام آباد میں تعینات ایک افسر سے راولپنڈی میں اس کے گھر الگ الگ جا کر ملے۔

دونوں کو بتایا گیا کہ’’ہم نیوٹرل ہیں‘‘۔ نیوٹرل ہونے کے اعتماد سے ہی دونوں رہنما پرجوش نظر آئے اور پھر اگلے چند ہفتوں میں عمران خان کے خلاف  تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ سامنے آ گیا۔ یہ الگ بات کہ فیصلہ کرتے وقت اپوزیشن رہنمائوں نے سوچا ہی نہیں کہ وہ عمران خان کو چوتھا بجٹ پیش کرنے سے روک کر اسے سیاسی شہید بنانے کی کوشش کرنے لگے ہیں جو ان کے لیے سودمند ہونہ ہو، عمران خان کے لئے بڑا مفید ثابت ہوگا۔

اگر نئی حکومت وجود میں آئی تو اسے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں چار سو ارب کے نئے ٹیکسز لگانے پڑیں گے اور جونہی یہ نئے ٹیکسز لگائے گئے عمران خان، نوازشریف کی طرح ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور دیگر مزاحمتی نعرے لگاتے کھوئی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کرلیں گے۔

عمران خان کو مگر کسی نقصان کے بغیراقتدارسے نکالنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اگرعمران خان کو واضح نظر آ گیا کہ وہ جا رہے ہیں تو وہ اکیلے نہیں بلکہ ’’کسی‘‘ اور کو بھی ساتھ  لے کرہی جائیں گے۔ لیکن اگر وزیراعظم کو یقین ہوا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیں گے تواس بار وہ آبپارہ کی بجائے اسلام آباد سیکرٹریٹ میں واقع کے بلاک سے رجوع کریں گے۔

انٹیلی جنس بیورو کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر سلیمان کی تعیناتی تو راولپنڈی کی آشیرباد سے ہی ہوئی تھی مگر وہ اصل میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے منظور نظر تھے۔ آج بھی دونوں افسران بعض شامیں اکٹھے ہی گزارتے ہیں۔

ڈاکٹر سلیمان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کا اعتماد بھی جیت چکے ہیں۔ مالی طور پر ان کی دیانت داری ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ ان کا نام نیب کے ایک مقدمے میں بھی گونجتا رہا ہے۔ مگر ایسی نازک صورتحال میں وہ وزیراعظم کے کام کے ہیں۔ شنید ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی فہرستیں بنا رکھی ہیں اور ان پر کڑی نظر بھی رکھی جا رہی ہے۔

تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے ان افراد کی شکایات دور کی جائیں گی اور انہیں رام کیا جائے گا۔ جو لوگ رام نہیں ہوں گے شاید وہ تحریک عدم اعتماد کے روزغائب کر دیے جائیں کیونکہ اس روز ایوان میں اکثریت ثابت کرنا حکومت کی نہیں بلکہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہوگی۔ حکومت تو شاید ایوان میں بھی نہ آئے۔

اس وقت پی ٹی آئی کے اندر ناراض ارکان قومی اسمبلی کی تعداد کم وبیش پندرہ سے بیس ہے اور اپوزیشن کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے صرف تیرہ ارکان کی حمایت درکار ہے گوکہ قومی اسمبلی کے 342 ارکان کے ایوان میں اپوزیشن کے ارکان کم وبیش 160 ہیں مگران میں بھی کچھ اوپرنیچے ہوسکتے ہیں اس لیے آصف علی زرداری اور شہباز شریف کم ازکم 25 حکومتی ارکان توڑنے کے لئے کوشاں ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت مختلف پیشکشوں کے ذریعے ان ناراض ارکان کو خرید نہیں سکتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض ارکان ایسے ہیں جو وزیراعظم سے اصولوں کی روشنی میں ناراض ہیں یہ وہ خاندانی لوگ ہیں جو عزت کی خاطر کسی بھی پیشکش کو ٹھکرا سکتے ہیں ان کی تعداد البتہ کم ہے تاہم مراعات لینے والوں کی تعداد ہمیشہ ہی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا حکومت کے پاس اس میدان میں کھیل کر جیتنے کا امکان بھی زیادہ ہے۔ جن ارکان کی نظر اگلے انتخابات میں پنجاب سے ن لیگ اور سندھ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ہے وہ البتہ مسئلہ پیدا کر سکتےہیں۔

ایسا نہیں کہ دوسری طرف سب ہاتھ پرہاتھ رکھ کربیٹھے ہیں اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی طرح سوچ بچارمیں ہے۔ ہردل میں طاقت کے ساتھ دیرتک جمے رہنے کی خواہش تو ہوتی ہے مگر ایسا ہونا مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے تاہم اگرعمران خان نے مقررہ وقت سے پہلے ہی کوئی ہاتھ دکھا دیا تو مسئلہ صرف جونیئر اور متنازع شخص کی تعیناتی سے ہی ہو گا لیکن اگر اس عہدے پر سینئربندے کو لگا دیا گیا تو شاید اتنا ردِعمل نہ آئے۔ سنا یہ ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے کسی ممکنہ حکم نامے سے ’’نمٹنے‘‘ کے لئے شاہراہ دستور پر انصاف کی عمارت میں بیٹھے قاضی کو بھی ہنگامی صورتحال میں ریلیف دینے کے لئے تیار رہنے کا اشارہ ہے۔

اوپر درج منظرناموں میں سب سے آئیڈیل صورتحال یہ ہوگی کہ وزیراعظم اوراسٹیبلشمنٹ اگلے 9 مہینے ایک دوسرے کو برداشت کرلیں اور پھر ایک پروقارانداز میں گھرچلا جائے ایک نیا اورغیرمتنازع شخص سامنے آئے۔ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت ختم کر کے وقت پرگھر جائے اورمداخلت سے پاک انتخابات منعقد ہوں اور لوگ من پسند جماعت اور اس کے رہنما کو منتخب کرلیں مگر یہ سب سوچنا اب کسی دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔

حالیہ تنازعے میں فریقین کے باہمی مفادات بھی نمایاں ہیں اور ان کے ٹکرائو کا امکان بھی واضح، ایسے میں کسی ایک کی جان چلی جائے یا کوئی اور حادثہ رونما ہوجائے تو یہ ملک و عوام کےفائدے میں نہیں ہو گا۔ حادثے کے امکانات اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ اسلام آباد اورراولپنڈی دونوں کےمکین خوف کا شکار ہیں اور خاموشی سے ایک دوسرے کے خلاف  گھاتیں اور وارداتیں کی جا رہی ہیں جو کسی وقت بھی طبل جنگ میں بدل سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments