قصہ خوانی کے قصہ گو اور وہ قبر جس پہ کتے سوتے تھے


ہ

ایک منظر کبھی نہیں بھولا۔ جب پہلی بار قبر پہ کتے سوتے دیکھے تھے۔ ڈر سی گئی تھی۔ لیکن آج سمجھ آتا ہے۔ کتے اپنی ہی جگہ پہ موجود تھے۔ ہم رستہ بھٹک گئے تھے۔

اور اب جب اس بات کو برسوں گزر گئے ہیں تب بھی یہ برسوں پرانی والی گیم ویسے کی ویسے کھیلی جا رہی ہے۔ نئی نسل کو سب کچھ نیا لگ رہا ہو گا۔ پرانی نسل سمجھتی ہے۔ کھیل کب کب کیسے کیسے کھیلا گیا ہے ۔ اور اس میدان کے کھلاڑی کون ہیں

یہ سیاست بھی ایک کھیل ہے۔

آج قصہ خوانی بازار میں جو کچھ ہوا۔ بالکل یو نہی یہی جگہ تھی اور یہی کارروائی تھی۔ اس وقت بھی اسلام آباد کے قریب تر پشاور ہی لگتا تھا آج بھی یہی تاریخی شہر ہے۔ اس لئے شاید بہار میں خون کا کھیل کھیلنے والوں نے اسے سرخ کر دیا۔ خطرہ تب بھی اسلام آباد کے آسمان پہ منڈلا رہا تھا۔ جنگ آج بھی یہی پہ ہے۔ منتخب تب بھی اس شہر کے اسی بازار، اسی مسجد کو کیا گیا تھا۔ انتخاب آج بھی یہی ہے۔

قصہ خوانی کے قصے کتنے درد ناک ہوتے ہیں۔ یہ درد قصہ خواں ہی جانتا ہے۔ کچھ نہیں بدلا۔ اتنی پرانی گیم، اتنے ہی پرانے انداز میں۔ لگ بھگ تیس سال شاید اس سے بھی زیادہ۔

اک ہوک اٹھتی ہے خوف خدا کا ہے تو کہاں ہے؟ تاریخ پہ نگاہ ہے تو کہاں ہے؟ اس کی قبر پہ آج تک کتے سو رہے ہیں۔ جس کے پہلو میں مغفرت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

جس کے ہر دور خلافت میں ڈنکے کی چوٹ پہ ہر دھماکہ پہلے دھماکے سے زیادہ دل لرزا دینے والا ہو تا تھا۔

تب بھی خوف میں شاہی محل کے درخت کٹوا دیے گئے تھے اب بھی جوتشیوں نے جن اور چڑیلیں اٹلی ٹانگی ہوئی ہیں۔ لیکن تب بھی آئی کو کوئی نہ روک سکا تھا اب بھی اگر آئی ہے تو یہ خون درد گہرا کر دے گا۔

اس کا مدعا نہ کسی میچ پہ ڈالا جا سکتا ہے نہ کسی مسلک پہ۔ اب
سب جانے والے جانتے۔
خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں

یہ خلیل اللہ فاروقی کی ایک نظم کا مصرعہ تب ریڈیو کی لہروں سے کانوں میں گونجا کرتا تھا۔ آج وقت کے دہرانے پہ دماغ میں چیخ رہا ہے۔

جب پہلے یہ سب ہوا۔ تب بہت انجان قسم کے حا لات تھے۔ آج میرے ملک کا بچہ بچہ باشعور ہے اور جہاں یہ خون کی ہولی یکم شعبان کو کھیلی گئی ہے وہیں کبھی کہا گیا تھا ”ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ تو جان من یہ بچے آج پھر کہہ رہے ہیں ”ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ لیکن آج ان کا لہجہ بدلا بدلا ہے۔

لہذا اب محلوں والوں کو فیصلہ خود کرنا ہو گا کہ دشمن کا بچہ کون ہے۔ اور باقی یہ بچے تو جان گئے ہیں کہ دشمن کے بچوں کو پڑھایا کیسے جاتا ہے۔

کوئٹہ ہویا پشاور ہو۔ گیم وہی ہے ہر نیا دھماکہ پہلے والے سے زیادہ دل لرزا دینے والا۔ اب دل لرز لرز کر اتنا باہمت ہو گیا ہے کہ گم شدہ افراد کا سوال پو چھا جا رہا ہے۔ دھرنے میں بیٹھے لوگ اپنے کچھ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان سے تو یہ امید نہیں تھی ناں کسی کو مگر وقت ایک سا نہیں رہتا۔

کچھ اپنے گم شدگان کا سوال پوچھ رہے ہیں۔ جواب نہیں ہے اور دینا بھی نہیں ہے۔ مطلب پرست ایسے ہی کرتے آئے ہیں۔ جو پھانسی کا پھندا شاہوں نے خدام کے لئے تیار کیا تھا۔ کسی آندھی کے تیز جھونکے سے شاہوں کی اپنی گردنوں کے گرد بل کھا گیا ہے۔ مگر اب اس رسی کو جلانے کے لئے دھماکے کے بارود کا سہارا لیا بھی جائے تو آگ اپنے ہی دامن کو لگتی ہے۔ پہلے بھی لگنے والوں کو آگ ہی لگی تھی۔ اور قبر مبارک پہ کتے سو رہے ہیں۔

آج بھی اگر آگ سے کھیلا گیا تو تاریخ کے دہرانے والے سمجھ سکتے ہیں۔ تاریخ ان پہ بھی ہو نہی اوندھے منہ پڑی ہو گی۔ جب اوپر کرنے والے مغفرت کی دعائیں کر رہے ہوں گے نیچے کتے سو رہے ہوں گے۔

اور جن کو ستاروں پہ کمند ڈلانے کا شوق ہے ان کو پندرہ شعبان خبر دینے ولا ہے کہ جلد ان کا شوق پو را ہو جائے گا۔ فرشتے خود حاضر ہو کے کہیں گے ”آؤ حضور تم کو ستاروں پہ لے چلیں“

کیونکہ اب یہ شوق یونہی پورا ہو سکتا ہے۔ تاریخ کی بھی کچھ اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
اب
آپ ستاروں پہ جانے کی تیاری کریں۔ زمین کا وقت پورا ہو چکا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments