کیا ہم یہ لڑائی لڑیں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے؟


\"\"

اج کوئی سیدھی بات نہیں کرنی سب الٹی باتیں ہی کرنی ہیں۔ حسن نثار صاحب نے لکھا ہے کہ افغانستان دو سو سال سے غریب ہے۔ وجہ یہ کہ اتنے ہی عرصے سے اس نے برصغیر پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت افغانستان کے درمیان میں پاکستان بن گیا۔ اس سے بھی پہلے سکھوں اور انگریزوں نے چن چڑھا دیا تھا۔ افغانستان سے فاٹا الگ کرا کے اپنے قابو کر لیا تھا۔ فاٹا والوں کا لڑائی مار کٹائی میں ہاتھ کھلا بھی تھا اور سیدھا بھی۔

افغان بادشاہ نے انگریزوں کے ساتھ اس معاہدے اور فاٹا حوالگی پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا تھا۔ یہ یاغستانی درد سر ہیں یہ اب انگریز کو ہی مبارک ہو۔ یاغستان خیر سے ہمارے شمالی جنوبی وزیرستان کا پیار والا نام ہے۔ یاغستانی کابل کے حکمران سے ہر وقت میچ ڈال کر رکھا کرتے تھے۔ البتہ افغان بادشاہ کو یہ یقین تھا کہ افغانستان کی کسی بھی بیرونی لڑائی میں یہ اسی کے ساتھ مل کر حملہ آور سے لڑیں گے۔

پاکستان بنا تو اللہ نے بڑا کرم کیا کشمیر کا مسئلہ تیار مل گیا۔

فاٹا والوں کو وہاں جھونک کر ہم نے اپنے اور ان کے لڑائی والے جراثیم کو آرام دیا۔ پھر ایک لمبا وقفہ آیا بیس پچیس سال کا۔ اللہ نے پھر کرم کیا روس کو کوئی درد اٹھا اور وہ افغانستان آ گیا۔ افغانستان میں تجربہ حاصل کر کے ہم نے کشمیر بھی دہکا لیا۔ اب رونق لگی ہوئی ہے۔

جہاں علاقائی تاریخ اتنی الٹ پلٹ کر رکھ دی ہے وہاں مذہبی فرقوں کے حوالے سے بھی کچھ کہہ لیا جائے۔ پاکستان میں اکثریتی طبقہ صوفی یا بریلوی فکر کا حامل ہے۔ پختون آبادی کی اکثریت دیوبند مکتبہ فکر کے ماننے والی ہے۔ دیوبندی حضرات کو پیار سے گلابی وہابی بھی کہا جاتا ہے۔ وہابی ہمارے ہاں موجود تو تھے لیکن ان کی اصل پنیری لگنے اور پھلانے میں سعودیوں کی خدمات ہیں۔ وہ افغان جہاد کے دوران ہی ہم پر مہربان ہوئے۔

سعودی ریال اتنی برکت والی کرنسی ہے کہ ایک اہم افغان راہنما عبدالرب رسول سیاف اسی کی برکت سے استاد عبدالرب سیاف ہوئے۔ مزہبی فکر بدل کر وہابی بننے کی استادی پر انہیں سلام پیش کرنا بنتا ہے۔ اکثر جہادی راہنماؤں کو بدو حضرات سے چندے بٹورنے کے لیے استاد سیاف کے خطوط کی ضرورت مستقل رہا کرتی تھی۔

اب بہت ڈرتے ڈرتے پاکستان میں مذہبی تقسیم پر بھی کچھ کہنا ہے۔ جہاں لوگوں کے پاس معاش کے ذرائع کم تھے۔ ان کے پاس وقت زیادہ تھا زندگی ایک مسلسل مشکل تھی۔ وہاں لوگ دیوبند فکر کے پیچھے لگ گئے۔ اپنے حالات بدلنے کو عبادت کرتے تبلیغ پر نکلتے اور جہاد پر یقین رکھتے جو ان کی تاریخ سے بھی لگا کھاتا تھا۔ جہاں زندگی ذرا آسان تھی معاش لوگوں کو زراعت یا صنعت میں مصروف رکھتی تھی۔ وہ لوگ صوفی یا بریلوی ہو گئے۔ ان کے یقین تو پختہ تھے لیکن عبادت کرنے میں اور دین کو پریکٹس کرنے میں کمزوری تھی۔

اٖفغان جہاد نے ہماری یہ معاشرتی ڈائنامکس بدل کر رکھ دیں۔ ستمبر گیارہ تو ابھی ہوا ہے لیکن جہاد یا فساد جو مرضی کہہ لیں یہ انڈسٹری بننا نوے کی دہائی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ جب کاروبار انڈسٹری کی بات ہو گی تو منافع کا ذکر لازمی ہو گا۔ منافع دیکھ کر جو دنیاوی بھی تھا اور آخرت کا بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ لینڈ سکیپ بدل گیا۔ جہادی فکر پاکستان کے ان علاقوں میں بھی جڑیں پکڑ گئی جہاں صوفی حضرات کا ہی سکہ چلتا تھا۔

جہادی فکر کو ہر قدم پر صوفی فکر نے ہی چیلنج کیا ہے۔ صوفیا کو ماننے والے انسانوں کے ساتھ خونی جنگ لڑنے کا نہ مزاج رکھتے ہیں نہ ہمت۔ لڑائی سے گریز کو دیکھا جائے تو باچا خان بھی ایک صوفی ہی لگتے ہیں۔ حالانکہ باچا خان نے کبھی صوفی ہونے کا دعوی بھی نہیں کیا۔ باچا خان نے پختوںوں میں عدم تشدد کا نظریہ متعارف کرایا۔ انہی کے ماننے والے تشدد کی بھرپور مزاحمت کے لیے کھڑے ہوئے اور نہتے سینکڑوں کی تعداد میں مارے گئے۔ تشدد کی یہ مزاحمت باچا خان کے پیروکار نہ کرتے تو اس لہر کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنا ہرگز آسان نہ ہوتا۔

یہ صوفی لوگ کرتے کیا تھے۔ کچھ بھی نہیں بس سب لوگوں سے برابری اور انسانیت کا سلوک۔ ذات پات کے نظام سے آلودہ برصغیر کے لوگوں سے انہوں نے یکساں محبت کی ان کی خدمت کی۔ ان کو تب بھی گلے لگایا جب وہ احساس گناہ کا شکار ہوتے۔ انہیں کبھی خدا اور عذاب سے نہ ڈرایا بلکہ اس کی رحمت اور انسانوں سے محبت کا ذکر ہی کیا۔ انسانوں کی بہت سی کوتاہیوں کو فطری تقاضے بتا کر نظرانداز تک کیا۔ ْ صوفی اس دھرتی کے اتنے مزاج شناس تھے کہ یہاں کے لوگوں پسند تک کا خیال رکھا۔ انہیں موسیقی پسند تھی تو انہیں راغب کرنے کو اس میں بھی نیا انداز متعارف کرایا۔

صرف اتنا ہی نہیں کیا لوگوں کے ساتھ مل کر دھمال تک ڈالی۔

لوگ بھی اس پیار اس چاہت کو نہیں بھولے نہ صوفیا کے دی تعلیم کو بھلا سکے۔ نسل در نسل ان سے تعلق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سندھ واسی اپنی اصل میں صوفی مزاج ہیں۔ سندھ والوں کو بہت گلے ہیں اپنے وطن سے اپنے ہم وطنوں سے۔ انہیں اپنی شناخت پر تعصب کی حد تک اصرار ہے۔ اس کے باوجود یہ صوفی مزاج لوگ انسان دوست ہیں۔ سندھ کا یہ صوفی مزاج ملتان تک ہے کہ کبھی سندھ ملتان تک ہوا کرتا تھا۔

ہماری حماقت دیکھیں کہ ہم نے اسی صوفی بیلٹ میں انتہا پسند فسادی فکر کی پنیریاں لگائیں۔

پھر بھی یہ صوفی مزاج ایک چیلنج ہے شدت پسندی بڑھ نہیں سکتی جب تک صوفی سوچ کے یہ لوگ موجود ہیں۔ سوچ کوئی کیسے دبائے صرف جان کا ڈراوا ہی دیا جا سکتا ہے۔ سو یہ ڈراوے دینے کے لیے ہی دھماکے ہوتے ہیں درباروں پر۔

جو کچھ ہو رہا ہے اس سب میں بیرونی ہاتھ ڈھونڈنا چھوڑ دیں تو ہی ہمارے لیے اچھا ہے۔ ہمیں اپنے فکری تضادات کا حوصلے سے سامنا کرنا ہے۔ اپنی پالیسیاں بدلنی ہیں۔ بری خبر یہ ہے کہ شدت پسندوں کے تمام گروہ اپنے ہر قسم کے مسلکی اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دھڑے پھر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ محسود فائٹر پھر ان سے جا ملے ہیں۔

اکٹھا ہونے کے بعد انہوں نے ایک بھرپور لڑائی شروع کر دی ہے۔ سوال بس ایک ہے کہ کیا ہم یہ لڑائی لڑیں گے یا اس سے منہ چھپا کر اپنی باری کا انتظار کریں گے

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments