رات گیارہ بجے بغیر اطلاع آنے والے 22 مہمان


لاہور کراچی اسلام آباد راولپنڈی فیصل آباد کسی بھی بڑے شہر میں جب بھی کسی عزیز رشتہ دار دوست واقف کار کے ہاں جانا ہوا یا ہوتا ہے تو ایک فقرہ باتوں باتوں میں میزبان گھرانے کے کسی فرد سے کسی پیرایہ یا ملتے جلتے الفاظ میں اکثر سنائی دیا یا دیتا ہے یا دے گا۔ ”ہمارے یہاں آنا جانا اور مہمانداری بھی تو بہت ہے نا۔ “ کہیں بشاشت سے ماشااللہ الحمدللٰہ کہتے ہوئے اور کہیں کچھ سکڑے منہ تھکے لہجہ میں۔

فراغت ملتے کمر سیدھی کرنے باہر آ کھڑا ہوا تو ہمسایہ دکاندار چوہدری نیاز صاحب کرسی پر بیٹھے سوئے تقریباً گرنے والے نظر آئے۔ شکر گڑھ کے قریبی گاؤں کے زمیندار سیاسی و سماجی حلقوں سے خاصے تعلق والے چوہدری نیاز کی رہائش بھی میرے گھر سے کچھ زیادہ دور نہیں پیپلز کالونی فیصل آباد ڈی بلاک میں ہی تھی۔ ان کی دل چسپ شخصیت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا مگر اس وقت وہ شدید سردی میں گرم چادر اوڑھے بتانا شروع ہو چکے تھے۔ ہاں یہ بتا دوں کہ ساٹھ کی دہائی کا وسط تھا گیس ابھی آئی نہیں تھی ڈی گراؤنڈ میں کھانے کے چٹخارے شروع نہیں ہوئے تھے اور شہروں میں لکڑی کے چولہوں کی جگہ مٹی کے تیل اور لکڑی کے برادہ سے جلنے والے چولہے لے چکے تھے۔

رات گیارہ کے لگ بھگ شدید سرد اور ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ہلکی بوندا باندی میں جب لگاتار دروازے کی گھنٹی بجنے کے ساتھ گیٹ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئے تو ہڑبڑا کے اٹھنا لازم تھا۔ گیٹ کھولا تو پہلے تو ہجوم دیکھ گھبرائے مگر ایک شناسا آواز ”او چوہدری صاحب آپ کا گھر ڈھونڈتے دیر ہو گئی“ آ گئی۔ یہ جڑانوالہ اور ننکانہ صاحب کے درمیانی علاقے میں چوہدری صاحب کے دوست اور شاید اس وقت شراکت دار خان صاحب کے گاؤں کے صرف بائیس افراد اگلی صبح کچہری میں کوئی تاریخ بھگتنے آئے تھے۔ آگے چوہدری صاحب سے۔

چھوٹے سے مکان کے ڈرائنگ روم فیملی روم میں ”اوکھے سوکھے“ مہمان سما چکے تھے۔ اور میں اوپر بیگم کو اٹھا رضائی والی پیٹیوں میں سے بائیس بندوں کے بستروں کا بندوبست کرنے کا کہہ نیچے آ گاؤں کے نمبردار سے پوچھ رہا تھا۔ ”ہاں بھائی کوئی روٹی ٹک؟“ ( کھانا وانا ) ۔ ”نہیں، بھکھے ای سوں جانے آں“ ( نہیں، بھوکے ہی سو جاتے ہیں ) نمبر دار کی آواز آئی۔ اب میں بستر بھی نکال رہا ہوں اور بیگم مٹی کے تیل دو چولہے جلا جو گھر میں تھا پکا اور آٹا گوندھ روٹیاں بنانے میں مصروف ہو چکی تھیں۔

کوئی تین بجے کے بعد کھانا کھلا فارغ ہو زمین پہ فرشی بستر بناتے سلاتے چار ساڑھے چار صبح کے ہو چکے تھے۔ اور بیگم کو بتا رہا تھا کہ صبح آٹھ بجے تک ان لوگوں نے کچہری پہنچنا ہے اور نمبر دار ”ناشتہ کرتے ہی نکل جائیں گے“ کی نوید سنا چکا ہے۔ لہذا ہم دونوں اب ناشتہ کے چکر میں پڑ چکے تھے۔ صبح چھ بجے سے دوچار کے گروپ اٹھا ناشتہ کراتے ساڑھے سات بجے مہمان کچہری کو روانہ ہوچکے تھے بیگم بچوں کو اٹھا سکول بھجوا رہی تھیں اور میں لڑکھڑاتا سائیکل چلاتا دکان پہ آ رہا تھا۔ اب نیند تو آئے گی نا

اب ستؔر کی دہائی کا اواخر ہے میرے کالج فیلو ملک رمضان بطور لیکچرر قومیائے جا چکے ایف سی کالج لاہور میں تعیناتی کے بعد جیسے تیسے جیسی ملی رہائش مل جانے پر بچوں کو گاؤں سے بلا چکے ہیں اور چھٹی والے روز کہ داتا صاحب کے عرس کے دنوں میں میں اور بیگم ان کے گھر پہ بیٹھے گپ شپ لگا رہے ہیں۔ لیہ شہر کے نزدیکی گاؤں کے باسی ملک رمضان اپنی سرائیکی لہجہ کی میٹھی اردو میں پچھلے روز کی داستان سنانا شروع کر چکے ہیں۔

” بھابی جب میں شام نگر میں اکیلا ایک کمرے میں رہتا تھا تو داتا صاحب کے عرس کے موقع پر گاؤں سے دوچار عزیز آ جایا کرتے۔ اب کل مغرب کے کچھ ہی بعد اچانک دس بارہ گاؤں کے باسی میرے دروازہ پہ کھڑے تھے کہ عرس پر زیارت کے لئے آئے ہیں۔ اور مجھے جو کسی پرانے زمانے کی بیرک کا ایک لمبوترے کمرے کا ساتھ چھوٹے سے کچن اور واش روم پہ مشتمل گھر ملا ہے اس میں کہاں ان کو سلاؤں کہاں ہم گھر والے سوئیں اور اس وقت اتنے بندوں کے کھانے کا بندوبست، کہ میرے پاس تو سائیکل بھی نہیں سودا سلف لانے کو۔

اچانک ذہن نے جھٹکا کھا مسئلہ حل کر دیا۔ اور انہیں کہا“ یار تم لوگ عجیب پاگل ہو یعنی بس اڈہ پہ اتر کے بجائے دو کلومیٹر داتا دربار کے اتنی تکلیف اٹھا پھر بس کے دھکے کھا میرے پاس آ پہنچے ہو۔ یہی رات کا وقت عرس میں سماع عبادت اور رونق کا ہوتا ہے۔ کل صبح پہنچنے تک تو رونق ختم ہونا شروع ہو چکی ہوگی۔ چلو میں تم کو ابھی ساتھ جا کے سب کچھ دکھا دوں۔ کوئی تین گھنٹے بعد ہم سب داتا دربار پہنچ لنگر سے پیٹ بھر کھانا کھا دعا سماع اور میلے میں مصروف ہو گئے اور جب صبح ہونے لگی تو عرض کیا کہ میں نے تو کالج کلاس لینی ہے آپ نے آنا ہے تو آ جائیں لیکن اکیلے بے کار کیا کریں گے یہاں سے اڈہ بھی قریب ہے میلہ ٹھیلہ کرتے عبادت دعائیں کرتے واپسی تک وقت بھی خوب گزر جائے گا آگے آپ کی مرضی۔ ان کی مرضی میلہ ٹھیلہ دیکھنے کی بنا میں گھر آ گیا ورنہ شاید آج بھی میں ان کے ساتھ وہیں پھنسا ہوتا۔ اب بڑے شہر میں چھوٹی رہائش اور گاؤں کے باسی کیا کریں ”۔ رمضان کا دلچسپ نمک مرچ لگا سنانے کے انداز پر

بیگمات کے قہقہوں میں ہماری ہنسی شامل ہو چکی تھی۔ اور اگلے چند سالوں میں ملک رمضان ( مرحوم ) جب تک ٹاؤن شپ اپنے مکان میں منتقل نہ ہوئے دو تین مرتبہ یہ واردات ڈال چکے تھے۔

لاہور سے چھٹیاں گزارنے آئے بڑے بھائی کے بچوں کو ان کی خواہش پر، گاؤں کی زندگی دکھانے ہم اپنے کالج میں بنے سب سے پہلے دوست چوہدری محد سلیم اختر ( اس وقت ذیل دار گھرانا ) کے وسیع گھر ( چک 192 نزد مرید والہ) کے دالان میں ان کی محترم والدہ کے ساتھ پیڑھیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ گاؤں میں صرف ان کی والدہ تھیں۔ بہن تھی نہیں اور باقی پانچ بھائی اپنی ملازمتوں پر۔ مگر یہاں صحن میں تین خاصے بڑے اور کچھ چھوٹے چولہے بنے تھے دو بڑے چولہوں پر بڑے دیگچے سالن کے رکھے تھے اور ایک بڑے چولہے پہ توی ( کوئی چار فٹ قطر کا توا ) کے گرد چار عورتیں گول دائرہ میں بیٹھے روٹیاں پکا رہیں تھیں۔

اور والدۂ سلیم ہمارے ساتھ کھانا کھاتی ساتھ ہدایات جاری کرتی جاتی تھیں۔ باہر ڈیرے میں اتنے مہمانوں کا کھانا بھجواؤ۔ یہ ٹیوب ویل پہ۔ یہ مولوی صاحب اور مؤذن کے گھر یہ بھینسوں والے باڑے میں۔ یہ فلاں گھر۔ ڈیرے پہ تو کئی بار آ کر رونق دیکھ چکا تھا جہاں پندرہ بیس چارپائیاں اور تین چار کارندے وقت بے وقت آنے والے مہمانوں کی خدمت خاطر کے لئے موجود ہوتے۔ گھر کے اندر جانے کا اتفاق پہلی بار تھا۔ کھیتوں کے چکر لگا گاؤں اور اس کی زندگی دکھا ٹیوب ویل پہ پانی کے مزے لے پھر شام کا کھانا کھا ہم لوگ رات واپس آچکے تھے۔ اور اب بھی کبھی گپ شپ میں وہ دن اور اس کا مزا اور مٹھاس آج بوڑھے ہوتے اس وقت کے بچے مزے لے یاد کرتے ہیں۔

اور اس کے ساتھ جب مجھے چوہدری نیاز اور ملک رمضان کے چہرے سامنے آتے ہیں تو یہ سمجھ آتی ہے کہ گاؤں سے آنے والے گاؤں کی سہولیات اور معاشرتی زندگی کا ہی تصور لئے بلا تکلف شہر آ دروازہ کھٹکھٹا لینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جب کہ گاؤں کے وہی میزبان شہر کی گلیوں کی مجبوریوں میں جکڑ چکے ہوتے ہیں۔

زمانہ بدل چکا اب فون کر یا اطلاع دیے بغیر آنا معیوب ( اکثر ) ہو چکا۔ کم از کم مغربی ملکوں میں جہاں اب ہم آ بسے۔ مگر کیا اب بھی وطن عزیز کے بڑے شہروں میں سردیوں کے رات گیارہ بجے بائیس مہمان گاؤں سے آ اسی مطمئن دل اور استحقاق سمجھتے دروازہ کھٹکھٹا لیتے ہیں۔

او دیس سے آنے والے بتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments