بااختیار خواتین


خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بااختیار بنانے سے ہماری مراد کیا ہے ؟ تو اس سے مراد خواتین کے لیئے تعلیم اور صحت کی سہولیات کا ہونا ہے، جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔ خواتین کو ان کی زندگی کے بنیادی فیصلوں کا اختیار دینا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ عورت کی سیاسی سماجی حیثیت تسلیم کیئے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اور بد قسمتی سے جنوبی ایشیا میں ابھی تک خواتین کو وہ اختیار نہیں مل سکا، جو اسے ملنا چاہیئے۔ اسے برابری کی بنیاد پر تعلیم حاصل ہے نہ صحت کی سہولیات۔ بیشتر ملازمتوں کے دروازے صنفی تخصیص کی بنا پر اس پر ابھی تک بند ہیں۔ اس حقیقت سے نظر تو نہیں چرائی جا سکتی لیکن یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اس خطے میں خواتین کو کم تر درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں، یہاں خواتین کو قدم قدم پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کی ترقی پورے جنوبی ایشیا کا اجتماعی مسلہ ہے۔ یہاں کا مرد ذہنی طور پر خواتین کی آزادی ماننے سے انکاری ہے۔ وہ یہ بات قبول ہی نہیں کر پارہا کہ عورت انسان ہے۔ اس خطے کے مرد کے لیئے خواتین صرف جنسی لذت کے حصول کا ذریعہ ہیں اور بس۔
دنیا میں ہوئی بے تحاشا ترقی کے باوجود جنوبی ایشیا میں خواتین کے لیئے حالات سازگار نہیں ہوسکے ہیں۔ اس خطے میں کم عمر خواتین کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ پچاس فیصد خواتین کی شادی اٹھارہ سال سے کم عمر میں ان کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے۔ یہاں بچوں کی پیدائش کے معاملے میں بھی خواتین کو آزاد نہیں کیا گیا، حالانکہ اس کا معاملہ سراسر خواتین کی ذات سے جڑا ہے۔ لیکن اولاد پیدا کرنے کا معاملہ صرف اور صرف مرد اپنا حق سمجھتا ہے۔ اورمرد اس حق کاپورا فائدہ اٹھاتا ہے۔ بے تحاشا بچوں کی پیدائش سے خواتین کی صحت برباد ہوجاتی ہے۔ دنیا کے مقابلے میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح اس خطے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے لیئے کیا جانے والا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص کر پسماندہ علاقوں کی خواتین کے لیئے صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی۔صحت پر خرچ کیا جانے والا جی ڈی پی ایک فیصد ہے۔ بچے کی جنس کے حوالے سے بھی یہاں بے چینی دیکھنے میں آتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے قبل الٹرا ساونڈ سےجنس کا پتہ کر کے بچی کی صورت بیشتر لوگ حمل ساقط کروا لیتے ہیں۔ یہاں خواتین کو جنسی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ یہاں خواتین پر ذہنی اور جسمانی تشدد عام ہے۔ جنسی تشدد بھی اس خطے کا اہم مسلہ ہے۔ نوکری کرنے والی خواتین کو تو جنسی ہراسگی فیس کرنا پڑتی ہی ہے، لیکن گھر میں رہنے والی عورت بھی جنسی ہراسگی سے محفوظ نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے قریبی مرد رشتہ داروں سے ہراس ہوتی ہے۔ یہاں تو مرد اپنی شریک حیات پر بھی جنسی تشدد کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پورے جنوبی ایشیا میں یہی حال ہے۔ یہاں خواتین کی تعظیم پر زور تو دیا جاتا ہے لیکن ان کی عزت نہیں کی جاتی۔ خواتین پرمردوں کاغلبہ ہے۔ یہ تصور عام ہے کہ خواتین کا تحفظ صرف مرد ہی کر سکتے ہیں۔ عورت گھر کی چار دیواری سے باہر غیر محفوظ سمجھی جاتی ہے۔گو کہ اکثر خواتین گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔ دیہی علاقوں میں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں۔ شہر میں رہنے والی خواتین کو تعلیم کی سہولیات میسر تو ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو روزگار کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ خواتین کے لیئے روزگارنہ ہونے کےبرابر ہے۔
اس خطے کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کوخود اپنے حقوق سے آگاہی حاصل نہیں۔ مذہب کے نام ہر جتنی پابندیاں خواتین پر لگائی جاتی ہیں وہ تمام خود ساختہ پابندیاں ہیں۔ کہ مذہب اتنی پابندیاں نہیں لگاتا جتنی پابندیاں مذہب کے پیروکاروں نے خود خواتین پر لگا رکھی ہیں۔ اس خطے کی خواتین سماجی سطح پر تو محرومی کا شکار ہیں ہی، لیکن صنفی بنیاد پر اس کو خانگی سطح پر بھی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں خواتین کے مسائل پر بات نہیں کی جاتی۔ نہ ان کے مسائل پر سنجیدگی سے سے غور کیاجاتا ہے اور نہ ان کے مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین اپنے حقوق کے لیئے آٹھ مارچ کو خواتین کا دن مناتی ہیں لیکن اس خطے میں خواتین کا یہ دن تضاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ خواتین اپنے حقوق کے لیئے آواز اٹھائیں، نعرے لگائیں تو یہی نعرے ان کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ اپنے حق کے لیئے آواز اٹھانا یہاں آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی ہامالی ہوتی ہے۔ اس خطے میں قدم قدم پر خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔
جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان میں خواتین کے اختیار کی بات جائے تو یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہم بہت پیچھے ہیں۔ اگرچہ یہاں خواتین کے حقوق کے لیئے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر دستخط بھی کیئے جا چکے ہیں کہ یہاں خواتین کے حقوق کے لیئے کام کیا جائے گا۔ خواتین کو ان کے حقوق فراہم کر کے انھیں ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے گا۔ تایم ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے باوجود ان معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مغالطہ ہے کہ خواتین کو حقوق دے کر کسی غیر ملکی ایجنڈے کو تقویت دی جائے گی۔ حالانکہ خواتین کے مسائل کا حل ان کا بنیادی حق ہے۔ اور عورت کو بنیادی حق دینا آئین میں لکھا ہے۔ عورت کا بنیادی حق تعلیم اور صحت کے مسائل کو یقینی طور پر حل طلب ہیں۔ اور اس کے لیئے ریاست کے ساتھ سول سوسائٹی کی تنظیمیں مل کر خواتین کی ترقی کے لیئے کام کررہی ہیں۔ کہ خواتین کی ترقی کا براہ راست اثر معاشرے پر ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق تک رسائی دی جائے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیئے کوشش کرنا ہوگی۔ یہاں کی عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزادی دینا ہوگی۔ اپنی مرضی سے رہنے کی آزادی، اپنی مرضی کا مضمون پڑھنے میں آزادی، اپنا جیون ساتھی خود منتخب کرنے کی آزادی۔ جبکہ یہاں خواتین کو ہر بات میں پابندی اور جبر کا سامنا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیئے زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین کو اختیار نہ دیا جائے۔ اس کے لیئے صنفی مساوات کو ختم کرنا ہوگا۔ خواتین کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کی ضرورت یے۔ چائلڈ میرج ایکٹ کی ضرورت ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیئے صحیح معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں کی خواتین کو صحت اور انصاف کی سہولیات ان کے گھر کی دہلیز تک دینا یوں گی۔ خواتین پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو یہاں کی خواتین بااختیار بنانا ہوگا۔۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغرب کی خواتین نے بھی اپنی بقاء کی جنگ کے لیئے بڑی قربانیاں دیں ہیں، تب کہیں جاکر انھیں آزادی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم اگر جنوبی ایشیا میں خواتین کو بااختیار بنانےکا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ یہاں کی خواتین جلد اپنا مقام حاصل کر لیں گی۔ کیونکہ یہاں کا مرد مغرب سے متاثر ضرور ہے لیکن وہ مغرب جیسی آزادی اپنی خواتین کو دینے کے حق میں نہیں۔ اس خطے کی خواتین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں، دیکھیں وہ اس میں کب کامیاب ہوتی ہیں۔ خواتین کے مسائل کا حل مردوں کے تعاون سے مشروط ہے۔تاہم ایک خوش آئیند بات یہ ہے کہ یہاں کی خواتین کا سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت میں تو خواتین وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطہ خواتین کے لیئے بدترین خطہ ہے۔ کیونکہ یہاں صرف مخصوص طبقے کی خواتین ہی آزاد ہیں۔ عام خواتین پر تو ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments