ماحولیاتی تبدیلیاں اور حیاتیاتی تنوع


حیاتیاتی تنوع کے بغیر انسانیت کا کوئی مستقبل نہیں، ہمارے مستقبل کے لیے بایو ڈائیورسٹی یا حیاتیاتی تنوع کی اہمیت کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ میکڈونلڈ کے اس جملے سے زیادہ بہتر انداز میں بیان کرنا مشکل ہے۔ حیاتیاتی تنوع سے مراد آسان لفظوں میں یہ لی جا سکتی ہے کہ اس سیارے پر حیاتیات کی ان گنت اقسام ہیں۔ زمینی اور سمندری ماحولیاتی نظاموں کے الگ الگ انواع و اقسام کے حیاتیاتی رنگ ہیں۔ ہر ماحولیاتی نظام کا حیاتیاتی تنوع منفرد ہوتا ہے اور یہی حیاتیاتی تنوع دھرتی کے ماحولیاتی نظام میں توازن کے لیے ضروری ہے۔

لیکن اس حوالے سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہماری سرگرمیوں کی وجہ سے زمین سے حیاتیاتی رنگارنگی یا تنوع تیزی سے ختم ہور ہا ہے اور جانداروں کی قریب 10 لاکھ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق مستقبل میں اس صورتحال میں مزید بد تری کے خدشات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں او ر ہر نئی تحقیق ان خدشات کی تائید کر رہی ہے۔

یہ اس سیارے پر حیاتیاتی تنوع میں کمی یا خاتمے کا پہلا موقع نہیں ہے اسی لیے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع کے ممکنہ خاتمے کو سائنسدان سکستھ ماس ایکسٹنکشن کا نام دے رہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس سے پہلے بھی دھرتی پر حیاتیاتی تنوع کم سے کم پانچ مرتبہ شدید تباہی کا شکار ہوا ہے لیکن اس طرح کی تباہی کے بعد نئی قسم کی حیات کے ظہور پذیر ہونے سے حیاتیاتی تنوع پھر سے قائم ہوتا رہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ قابل ذکر واقعہ ڈائنوسار کا خاتمہ تھا جس کے بعد دودھ دینے والے جانوروں اور پرندوں کا دور شروع ہوا۔ سائنسدانوں کے مطابق ایک بڑے ایسٹیریڈ کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں زمین کا کاربان سائکل بری طرح متاثر ہوا جس سے ڈائنوسار سمیت جانداروں کی کئی اقسام ختم ہو گئیں- اس تناظر میں دھرتی کی تاریخ کے گذشتہ قریب دس ہزار سالوں کو موسمیاتی حوالے سے ایک مستحکم اور خوشحال زمانہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں زمین کا درجہ حرارت کافی حد تک مستحکم رہا ہے۔ اس سے پہلے دنیا کا درجہ حرارت 10 سینٹی گریڈ کے فرق سے اوپر نیچے ہوتا رہا تھا اور اس سے زمین پر زندگی بحرانوں کا شکار رہتی تھی۔ اس لیے سائنسدان اس زمانے کو رف ٹائمز قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ دس ہزار سالوں کے دوران دنیا کا درجہ حرارت صرف ایک سینٹی گریڈ کے فرق سے مستحکم رہا ہے درجہ حرارت میں اس استحکام سے سمندری سطح مستحکم ہوئی۔

پہلی بار سال کی مختلف موسموں کا تصور ابھرا، قابل اعتبار موسمی حالات نے زراعت اور تہذیب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جیالوجسٹ اس زمانے کو ہولوسین کا نام دیتے ہیں لیکن سائنسدان اب اس بات کی نشاندہی کرنے لگے ہیں کہ ہولوسین کا زمانہ اختتام پذیر ہو چکا ہے اور اب ہم اینتھروپوسین یعنی انسانوں کے زمانے میں داخل ہوچکے ہیں۔ کیونکہ اب اس سیارے پر برپا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی محرک انسانی سرگرمیاں ہیں۔

ہم حیاتیاتی تنوع کی افزائش کے لیے موزوں آدھی سے زیادہ زمین کو زراعت اور جانور پالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی حال سمندروں کا ہے جن میں حد سے زیادہ مچھلی ماری جا رہی ہے۔ اسی طرح کی دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے سیارے کے گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور دھرتی کو موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران کا سامنا ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کا یہ بحران ایک اور بحران کو جنم دے رہا ہے جسے سائنسدان بایوڈائیورسٹی لاس یا حیاتیاتی تنوع میں کمی کا نام دیتے ہیں- اس حوالے سے ایلزبیتھ کولبرٹ کی ایک تصنیف دی سکستھ ماس ایکسٹنکشن۔ کے نام سے سامنے آئی ہے جس کو اس سال نان فکشن کیٹیگری میں پلٹرز انعام دیا گیا ہے۔ کتاب کے حوالے سے نیشنل جیوگرافک کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ایلزبیتھ کولبرٹ کا کہنا ہے کہ جیالوجی کے اعتبار سے ہم ماحول کو بہت تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں۔ ہم سمندروں کی کیمسٹری بدل رہے ہیں جنگل کاٹ کر زمین کی سطح تبدیل کر رہے ہیں ہم زراعت کے لیے ایک ہی طرح کے پودے اگا رہے ہیں جو کہ حیاتیاتی تنوع کے لیے اچھا شگون نہیں ہے ہم حد سے زیادہ مچھلیاں مار رہے ہیں اور اسی طرح کی سرگرمیوں کی ایک طویل فہرست ہے اوپر سے بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ جب ہماری آبادی 8 یا 9 بلین تک پہنچ جائے گی تو حیاتیاتی تنوع پر اس کی کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہمیں اس سوال کا تسلی بخش جواب میسر نہیں۔

حیاتیاتی تنوع میں اس کمی اور اس کو لاحق خطرات کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل کو روکا جائے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کا ایک دوسرے کی ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دھرتی پر حیاتیاتی تنوع ہی ماحولیاتی استحکام کا ضامن ہے اس لیے موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے حیاتیاتی تنوع کی حفاظت ضروری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments