مجھے کیوں نکالا


سیاست و حکومت کو ہمیشہ سے ایک بے رحم کھیل سمجھا جاتا ہے اور پاور پالیٹکس میں تو فوقیت ہی اسی بے رحم طاقت کو حاصل ہوتی ہے اور تمام اصول اور ضوابط اسی کے تابع ہوتے ہیں۔ عوام کی کنفیوژن اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب ان کا مسلمہ اصول پسند لیڈر حصول اقتدار کو ہی اصول بنا لے۔ پاکستانی سیاست میں آج تک عوام کسی لیڈر کو کلی طور پر اصولی ثابت نہیں قرار دے پائے اور نہ ہی یہ اصول پسندی ہمارے سیاسی کلچر میں بنیادی اہمیت حاصل کر سکی۔

اگرچہ ہر نیا لیڈر اسی اسٹیٹس کوو کو توڑنے کا دعویدار ہوتا ہے مگر شومئی قسمت بالآخر وہ خود اسی کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے اس کے نتیجہ میں عوام کا ایک طبقہ تو سیاست کو ایک گندا کھیل قرار دے کر مایوس اور لاتعلق ہو جاتا ہے اور زیادہ تر عوام طوعاً و کرہاً اس کے ساتھ ہی گزشتہ سے پیوستہ وابستگی رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور باقی مخصوص لوگ ”گندا ہے پر دھندا ہے“ کا نعرہ لگا کر مستعدی سے پاور پالیٹکس کو اپنا اور اپنے لیڈر کا ایمان مان لیتے ہیں۔

عمران خان کی ایک طویل جدوجہد اسی ارتقائی عمل سے گزری جس میں انہوں نے ایک مخصوص فکر کے ساتھ قومیت پرستی کے تحت سماج سدھار بلکہ سیاست سدھار پارٹی شروع کی اور اپنی خوبصورت اور کامیاب شخصی سحر کی بنیاد پر یوتھ اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تاہم عرصہ دراز تک وہ اپنی ایک سیٹ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اپنی کرشماتی مقبولیت کو سیاسی طور پر عمران خان تو کیش نہ کر سکے مگر کچھ طاقتور لوگوں نے اس مقبولیت کو اپنے حق میں کیش کروانے کا فیصلہ کر لیا اور یہیں سے عمران خان اس پاور پالیٹکس کا استعارہ بنے جو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں شاید سب سے زیادہ اہم اور مایوس کن باب ثابت ہوا۔

انہوں نے طاقتور طبقوں کی نادیدہ و دیدہ معاونت کے ساتھ وزیراعظم بننے کے لئے ہر اس اصول کو پامال کیا جو انہوں نے خود طے کرنے میں ایک طویل عرصہ صرف کیا۔ انہوں نے ہر اس عمل کو بنیاد بنایا کہ جس عمل کے خلاف وہ مزاحمت کرتے آئے تھے۔ قومیت پسند تو وہ تھے ہی اور کرشماتی شخصیت اور اس کا سحر ان کے گھر کی باندی تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ جب طاقتور اداروں کی حمایت، میڈیا کے گلیمر اور مذہب کے بے دریغ استعمال کا تڑکہ لگا تو ایک ایسی ہنڈیا تیار ہوئی کہ جس کی اشتہا انگیز خوشبو نے مذہبی، لبرل، امیر، غریب، پڑھے ان پڑھ تمام طبقات کو ان کے سیاسی دستر خوان پر اکٹھا کر دیا اور یوں کچھ جادوگروں کے چند راتوں کے عملیات نے ہی خان صاحب کے محبوب اقتدار کو ان کی آغوش میں لا پھینکا۔ اور پھر محبوب کی قربت کا نشہ بڑے بڑوں کو حقیقی شعور اور بصیرت کی راہ سے بھٹکا دیتا ہے اور عمران خان بھی خود کو اس سے بالا ثابت نہ کر سکے اور انہی غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھے تو کارزار سیاست کا ہر شہسوار ہمیشہ سے کرتا آیا ہے۔ وہ اس طاقت کو اپنی ذاتی کاوش سمجھ بیٹھے۔

وہ اپنے کارکنان، اپنی کرشماتی شخصیت، اور اپنے ویژن کو اقتدار کا ماخذ سمجھتے تو بھی درست تھا مگر وہ ان عوامل کو نہ سمجھ پائے جو اس سے بھی بالا تھے۔

آج 2014 میں تھمائی گئی تسبیح، صداقت و امانت کی مہر اور شخصی سحر سب دم توڑ رہے ہیں۔ آج وہ اسی پاور پالیٹکس کا شکار ہو رہے ہیں جس کا وہ خود سہارا لے کر ایوان اقتدار کے مکین بنے تھے۔ آج وہ ہانڈی جس کی اشتہا انگیز خوشبوئیں چہار سو پھیل رہی تھیں بیچ چوراہے کے پھوٹ رہی ہے، ایک پیج کا چولہا ٹھنڈا ہو چکا ہے، آنے والے فصلی مرغان سیاسی ٹوکری توڑ کر واپس بھاگ رہے ہیں اور باقی چند ایک مقامی پرندے اس صورتحال میں وہ ذخیرہ خوراک مانگ رہے ہیں جو تحریک انصاف کی نیم مردنی کو جان بخشنے کے لئے بچا کے رکھی تھی۔

ایسی صورتحال میں ان کے پاس نواز شریف بننے کے سوا کوئی چارہ باقی بچتا نظر نہیں آ رہا مگر کیا خان صاحب وہ نواز شریف بنیں گے جس کی مخالفت پر انہوں نے اپنی پوری سیاست کی عمارت کھڑی کی؟ کیا وہ نادیدہ قوتوں کو للکار سکیں گے؟ کیا وہ مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگا سکیں گے؟ ڈی چوک کا جلسہ اس کا اظہار کر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments