شہباز گل، رمیش کمار اور جعلی ادویات


بہتر ہے کہ ڈالو نہ ستاروں پہ کمندیں
انسان کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سیاسی جوڑ توڑ، گہما گہمی اور کشمکش میں میرے لیے جو بہت ہی اہم اور چونکا دینے والی بات شہباز گل کا دعویٰ تھا کہ رمیش کمار نے شہباز گل سے کینسر کی جعلی ادویات کی فروخت کے لیے پانچ بار مدد مانگی۔ شہباز گل گفتگو میں اخلاقیات سے گری ہوئی گالیاں بھی دیتے رہے اور ساتھ یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہے کہ رمیش کمار پنجاب میں ان سے جعلی ادویات کی فروخت کے لیے مدد مانگنے آئے تھے۔ اور ادویات بھی کینسر کی، جو کہ ایک انتہائی مہلک مرض ہے۔

اب یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رمیش کمار واقعتاً عمران خان یا کسی بھی تحریک انصاف کے رہنما سے اس حوالے سے مدد مانگ رہا تھا تو انھوں نے پہلے یہ بات کیوں نہیں کی؟ کیا یہ کوئی چھوٹی بات ہے یا کوئی مذاق ہے؟ کیا زندہ قوم اور معاشرے کا یہی تقاضا ہے کہ وہاں کینسر جیسے موذی مرض کی دوائیاں بیچنے والوں کی پردہ پوشی کی جائے اور اس وقت بات کو لیک کیا جائے جب بندہ پارٹی بدل لے؟ حالانکہ اگر شہباز گل میں، جو آج اس بات کا دعویٰ کر رہا ہے، رتی برابر بھی عوام، انسانیت اور ریاست کی محبت ہوتی تو یہ اسی وقت یہ بات عوام کے سامنے رکھتا اور عدالت اسے سزا دیتی۔

اگر ہم انسانوں کے کسی معاشرے میں ہوتے تو سارے سیاپے چھوڑ کر ان دونوں کو طلب کر کے تحقیقات کی جاتیں۔ شہباز گل سے اس الزام کا ثبوت مانگا جاتا۔ اس سے یہ بھی پوچھا جاتا کہ جب اسے کینسر کی جعلی ادویات کا علم تھا تو اس کا ایمان پہلے کیوں نہیں جاگا؟ اس نے پہلے منہ کیوں نہیں کھولا؟ کیا گھٹیا سیاست ضروری تھی یا انسانوں کی جانیں؟

پھر کینسر کی ادویات کی مبینہ لاٹ کی ٹیسٹنگ کی جاتی۔ اگر الزام سچ ثابت ہوتا تو رمیش کمار کو سخت ترین سزا ملتی اور گل کو جرم چھپانے پر سزا ملتی۔ اگر ثابت نہ ہوتا تو شہباز گل کو جھوٹے الزامات اور غیر اخلاقی گفتگو کی وجہ سے سزا ملتی۔ لیکن ہم مردہ معاشرے کا حصہ ہیں۔

پھر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ریاست مدینہ بنا رہے ہیں۔ کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ کیا ریاست مدینہ انسانیت دشمن تھی؟ ریاست مدینہ میں تو انسان کی جان ہی سب سے زیادہ مقدم تھی۔ اور یہاں ریاست کے دعوے دار انسانیت کے دشمن بنے پھرتے ہیں۔

یہاں ایک عجیب رسم چلی ہوئی ہے کہ جب تک کوئی سیاسی رکن ایک پارٹی کے ساتھ ہے تو وہ فرشتہ ہے، وہ انسانیت کے اعلی درجے پر فائز ہے لیکن جونہی وہ ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی کا حصہ بنتا ہے تو اس پر کرپشن، رشوت اور دوسری پارٹی سے پیسے لینے جیسے الزام لگا دیے جاتے ہیں جن کا ثبوت بھی فراہم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کبھی اس پر پراپر تحقیقات ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال قابل افسوس ہے۔

اب اگر شہباز گل کا دعویٰ درست ہے تو رمیش کمار کے ساتھ ساتھ جرم میں برابر کا شریک ہے۔ یہ خدا کے بھی مجرم ہیں اور انسانیت کے بھی اور اگر شہباز گل کا دعویٰ غلط ہے تو پھر وہ بہتان باندھنے کا مجرم ہے۔

متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ اس معاملہ کی خاص تحقیقات کریں اور مجرموں جو کیفر کردار تک پہنچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments