کشمیر فائل میں کیا ہے؟


آج کل ”کشمیر فائل“ نامی فلم پر بڑا شور و غوغا ہے۔ اس پر تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔ مجھ ایک دو چینلز پر اس فلم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔ بڑی تعداد میں لوگوں کے پر جوش رد عمل پر مجھے حیرت ہوئی۔ یہ رد عمل منفی بھی تھا، اور مثبت بھی۔ جو لوگ اس فلم کو پسند کرتے ہیں وہ اس کو بے عیب الہامی دستاویز کی طرح منوانا چاہتے ہیں، جس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہیں، اور خامی کا تصور ہی گناہ ہے۔

اسی طرح جن لوگوں کو یہ فلم پسند نہیں آئی، وہ اس کے حق میں ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہیں، خواہ وہ تبصرہ حقائق اور سچائی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے، جس نے حقیقت اور سچائی کو بھی لوگوں کی ذاتی پسند اور ناپسند کے تابع کر دیا ہے۔ بہرحال میں نے جو معروضات پیش کی وہ اپنے علم، خیالات اور افتاد طبع کے مطابق تھیں۔ جہاں تک فلم کے تکنیکی اور فنی پہلووں کا تعلق ہے تو اس پر رائے زنی اگرچہ کسی فلم نقاد، ایڈیٹر یا پروڈیوسر کا کام ہے، اور میرے دلچسپی کے شعبے اور مہارت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

لیکن اس طرح کی پیشکش کا سب سے بڑا نقاد فلم بین ہی ہوتا ہے۔ اور اس کی تنقید کا دارومدار اس کے براہ راست تجربے پر ہوتا ہے۔ سکرین پر فلم ایک فلم بین کو کیسی لگتی ہے؟ یہ بات فلمساز اور فلم بین دونوں کے لیے اہم ہوتی ہے۔ اگرچہ ہندوستانی فلمی صنعت یعنی بالی وڈ تکنیکی اعتبار سے کافی ترقی کر چکی ہے۔ ان کے پاس اگرچہ ہالی وڈ کے مقابلے کی نہیں، لیکن کافی جدید اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ فلم انڈسٹری میں مہارت کی بھی کمی نہیں۔

بڑے بڑے نامور پروڈیوسر اور کیمرہ میں موجود ہیں۔ مگر یہ فلم تکنیکی اور فنی خرابیوں سے پاک نہیں۔ مگر فلم پر تبصرے کا مقصد اس کے تکنیکی اور فنی پہلو کا جائزہ لینا نہیں، بلکہ اس پیغام کا جائزہ لینا ہے، جو اس فلم کے ذریعے دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس باب میں عرض کیا کہ فلم مذہبی اور سیاسی نظریات کے تابع ہے، اور ان نظریات کو فن کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالاںکہ گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ فن کے ذریعے اپنے سیاسی یا مذہبی خیالات کا اطہار کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔

فلم بھی ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اور اگر کوئی اپنے مذہبی یا سیاسی خیالات کو اس ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچانا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یہ آزادی اظہار رائے کا سوال ہے۔ اور اگر ہم آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں اس فلم ساز کے اس حق کو بھی ماننا پڑے گا۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے کے ذریعے اپنے مذہبی یا سیاسی خیالات کا اظہار کرنے اور نفرت انگیز خیالات کے پرچار میں بڑا نمایاں فرق ہے۔

فلم کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں پیش کی گئی بہت ساری باتیں تاریخی حقائق سے متصادم ہیں۔ خصوصاً دفعہ تین سو ستر کو غلط تاریخی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دفعہ تین سو ستر کشمیری پنڈتوں کے لیے کوئی بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اور پنڈت یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر دفعہ تین سو ستر کو ہٹا دیا جائے تو ان کے تمام مسائل ہو جائیں گے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دفعہ تین سو ستر کا تعلق کشمیر میں براہ راست حکمران طبقے سے بنتا تھا۔

پنڈت کشمیر کی جدید تاریخ میں کبھی بھی حکمران نہیں رہے تھے کہ ان کا ہندوستان کے حکمران طبقات کے ساتھ براہ راست کوئی مسئلہ پیدا ہوتا۔ البتہ ان کا دفعہ پینتیس اے کے ساتھ ان کا کئی حوالوں سے براہ راست تعلق تھا۔ پنڈت روایتی طور پر کشمیر کے مراعات یافتہ طبقے میں شامل رہے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ وہ شروع سے یعنی تاریخ کے اس دور میں تعلیم یافتہ لوگ تھے، جب کشمیر میں مسلمانوں کا تعلیم کی طرف کوئی خاص رجحان نہیں تھا۔

یہی وجہ ہی کہ کشمیر میں بیشتر سرکاری ملازمتیں پنڈتوں کے پاس تھیں۔ کشمیر میں محکمہ تعلیم سے لے کر مال پٹوار تک بیشتر ملازمتوں پر پنڈت فائز تھے۔ دوسرا وہ بڑی بڑی زمینوں کے مالک تھے، جو بعد میں شیخ عبداللہ کی حکومت میں بلا معاوضہ لے کر بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کر دی گئی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے زمانے میں جب سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون بنایا گیا تو اس کے پیچھے بھی پنڈتوں کا مطالبہ شامل تھا، اور اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ بھی پنڈتوں اور براہمنوں کو ہی ہوتا تھا، چونکہ زمینوں کے مالکان بھی وہی تھے، اور سرکاری عہدوں پر فائز اور اس کے امیدوار بھی وہی تھے، مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود اس مقابلے میں کہیں نہیں آتے تھے۔

ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد جب قانون ختم کیا گیا تو حالات بدل چکے تھے۔ جاگیرداری کے خاتمے کی وجہ سے پنڈت زمینوں کے اس طرح مالک نہیں رہے تھے، اور ملازمتوں میں بھی مسلمان اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ لہذا اس قانون کے خاتمے کے خلاف جو رد عمل ہوا، اس میں ریاست کے تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ جہاں وادی کے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی، وہاں جموں سے کئی ہندوؤں نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ فلم میں کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے۔

پنڈتوں کو زبردستی مسلمان بنانے یا مذہبی جبر و زبردستی کا سوال بھی اٹھایا گیا۔ تاریخ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے مختلف واقعات پر ہمیشہ متضاد خیالات اور متصادم بیانیے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین رہا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں کبھی بھی تاریخ کو غیر جانب داری سے لکھا یا پڑھایا نہیں گیا۔ ہمارے ہاں تاریخ نویسی یا تو مذہبی رجحانات اور ہمدردیوں کی بنیاد پر ہوئی یا پھر حکمران طبقات کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق تاریخ کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔

اس طرح فلم میں تاریخ کا جو بیانیہ پیش کیا گیا وہ جانا پہچانا ضرور ہے، مگر اس سے کئی لوگ اتفاق نہیں کرتے۔ اس فلم میں کئی سوال اٹھائے گئے، مگر جو سب سے اہم سوال سوال تھا اسے اٹھانے سے گریز کیا گیا۔ اور وہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ حکمران طبقات نے پنڈتوں کی واپسی یا ان کی زندگی کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کیے۔ اس باب میں نے عرض کیا کہ پنڈتوں کا مسئلہ انیس سو نوے میں پیدا ہوا تھا۔ ان تین دہائیوں کے دوران ہندوستان پر کانگرس، جنتا دل اور بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت رہی ہے۔

تینوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور اقتدار کے دوران پنڈتوں کے مسئلے اور ان کے مصائب پر بہت ماتم کیا، مگر ان کے مطالبات اور ضروریات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ یہ رویہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ پنڈتوں کے مصائب پر صرف سیاست ہوتی رہی۔ اب بھی بھارت میں زمام اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے آپ کو پنڈتوں کے کاز کا چمپین بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ پنڈتوں کے المیے پر آنسو بہاتے ہیں۔ لیکن ان کے مطالبات کو لے کر ایک بیان تک دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ پنڈتوں سے ہمدردی کے لیکچر تو ضرور دیتے ہیں، لیکن اس میدان میں اپنے اختیارات کے استعمال سے پراسرار طریقے سے کنی کترا کر نکل جاتے ہیں۔ فلم میں بھی پنڈتوں کے مطالبات کے حوالے سے یہی رویہ اختیار کیا گیا، جو افسوسناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments