ڈی چوک سے ڈی چوک تک


عمران خان نے 22 سال جدوجہد کے بعد پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے لئے انھوں نے ڈی چوک پر 126 دن کا ریکارڈ دھرنا دیا۔ اب ان کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد اور اجلاس بلانے کی ریکوزیشن پیش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی خان صاحب کے خلاف پی ڈی ایم بنی، لیکن زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اور اب پھر ایک دفعہ اپوزیشن متحد ہوئی ہے نجانے اب کیا گل کھلائے گی۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار خاور گھمن کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد تک شاید بات نہ ہی پہنچے، اس سے پہلے ہی معاملات کسی کروٹ بیٹھ جائے گئے، بس گھبرانا نہیں۔

اس عدم اعتماد کا نجانے کیا نتیجہ نکلے گا۔ اس کا فیصلہ اب وقت ہی کرے تو بہتر ہے۔ کیونکہ سیاست میں آخری وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی لیے تو خان صاحب نے آخری گیند تک کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اپوزیشن نے جب لانگ مارچوں اور ڈی چوک پر دھرنے دینے کا فیصلہ کیا۔ تو اس کے مقابلے میں خان صاحب نے بھی عوامی پاور شو کرنے اور پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے 27 مارچ کو پارٹی اراکین اور عوام کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دے دی ہے۔ اب سب کی نظریں پارلیمنٹ جہاں عدم اعتماد کا فیصلہ ہونا تھا، کی بجائے ڈی چوک پر ہے۔ ڈی چوک اس وقت پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

سیاسی گرما گرمی اس وقت عروج کو پہنچی ہوئی ہے اور ہر روز اس تپش میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اک دوجے سے بڑھ کے ہر کوئی ایک دوسرے پہ وار کرنا چاہتا ہے۔ کوئی یہاں ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہر کوئی کرسی تک پہنچنا اور اس پر بیٹھنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ یہ گرما گرمی صرف اور صرف کرسی اور اقتدار کے لئے ہے۔ ایک سیاسی جنگ لگی ہوئی ہے اور امید ہے یہ جنگ مارچ کے آخری ہفتے میں اپنے اختتام کو پہنچے جائے گی۔ اس لیے مارچ کے آخری ہفتہ کا انتظار کرے۔

15 مارچ کا دن پاکستان اور پورے عالم اسلام کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلام فوبیا کے حوالے سے جو قرار داد پیش کی گئی تھی وہ منظور ہو گئی ہے۔ اور اس قرارداد کا منظور ہونا پاکستان کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور اب اسلام آباد میں او آئی سی کی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے۔ جو 19 سے شروع ہوکے 23 مارچ کو ختم ہوگی۔ اس کانفرنس میں اسلام فوبیا، افغانستان، کشمیر اور فلسطین جیسے اہم ایشوز پر بات چیت ہوگی۔ اگر میں یہ کہوں، کہ اس کا سہرا وزیراعظم عمران خان کے سر جاتا ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

دوسری طرف اپوزیشن، پی ٹی آئی کے کچھ ارکان قومی اسمبلی اور اتحادیوں نے جو کٹا کھولا ہوا۔ اس کی رسی کسی کے ہاتھ نہیں لگ رہی، جو اس کٹے کو پکڑ کے باندھ دے۔

پہلے منحرف ارکان کی بات کرتے ہیں کہ اب چار سال گزرنے کے بعد ، عمران خان اب ان سب کو اچھا نہیں لگتا۔ اب ان کو عمران خان سے اتنے شکوے ہیں کہ کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔ پہلے جہانگیر ترین، اس کے بعد علیم خان نے اپنا گروپ بنا لیا۔ اسحاق خاکوانی سے راجہ ریاض تک خلاف کھڑے ہو گئے۔ ذرائع کا الزام ہے کہ سندھ ہاؤس میں اس وقت نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول کے ارکان اسمبلی کو 20 کروڑ روپے کے عوض خریدا جا رہا ہے۔ ویسے ارکان اسمبلی کو خریدنا، اور ان کا بکنا پاکستان میں عام اور معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ سینٹ انتخابات اس کی بہترین مثال ہے۔

سننے میں آ رہا کہ اپوزیشن یہ دعوا کر رہی ہے کہ کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہمارے ساتھ 30 ارکان اسمبلی کھڑے ہیں۔

یہ سب دیکھتے اور سنتے ہوئے تحریک انصاف کے حامیوں نے سندھ ہاؤس پر حملہ کیا، اور منحرف ارکان کو وزیراعظم کا ساتھ دینے پر مجبور کیا۔ اور منحرف ارکان کے حلقوں میں ووٹرز کے احتجاج جاری ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر اسد عمر نے منحرف ارکان کو شوکاز نوٹس بھیج دیا۔ اور ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے جواب طلب کر لیا، آج چوہدری فواد حسین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کچھ منحرف ارکان نے دوبارہ ہم سے رابطہ کیا ہے۔ حکومت پہلے کہیں جا رہی تھی نہ اب کہیں جا رہی ہے۔

اب آ جائے اتحادیوں کی طرف، اتحادی بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس کشتی پہ ہی بیٹھے جس کی منزل اقتدار ہوں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی سے کچھ معاملات طے بھی ہو گئے ہیں۔

گجرات کا چوہدری بھی وزارت اعلی کے چکر میں ہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کا ساتھ چھوڑا ہے اور نہ ابھی اپوزیشن کا ساتھ دیا ہے۔ ہم سب اتحادی ایک پیج پر رہے کے فیصلے کرے گئے۔ اس بیان سے عیاں ہوتا ہے کہ چوہدری بھی دیکھ رہے ہیں کہ جس نے اچھا ٹکٹ دیا، اسی فلائٹ پہ بیٹھے گئے۔

اس وقت ملک میں ایک عجیب کشمکش چلی ہوئی ہے بندہ اعتبار کرے تو کس پہ کرے یہ سب ہی موقع شناس ہے ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کے ذاتی مفاد کے چکروں میں ہے۔

یہ مان لیا بے روزگاری، غربت اور مہنگائی نے ہر طرف ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اور اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ قارئین اگر ان لوٹیروں کو 30 سال دیے ہیں اور انھوں نے ملک کو کس نہج تک پہنچا دیا۔ عمران خان کو بھی کچھ وقت درکار ہے اس ملک کو ٹھیک کرنے میں عمران خان کا ہم سب کو ساتھ دینا ہو گا۔

لیکن یہ بات تاریخ یاد رکھے گی کہ عمران خان اکیلا ملک کے مفاد میں ایک طرف ڈٹا ہوا ہے تو دوسری طرف ملک کو دلدل میں دھکیلنے والوں کا ٹولہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments