فیض کی محبت میں: اشفاق کا فیض سے بے پناہ عشق


ایک دو ماہ پہلے اشفاق حسین کی کتاب ”فیض کی محبت میں“ کا ذکر سنا اور پھر مارچ کے آغاز میں انہوں نے کتاب بھجوا بھی دی تھی لیکن آپ جانیں مارچ کے مہینے میں ہم خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے مہینہ بھر عورتوں سے متعلق سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں اور پھر کتاب کی ضخامت نے بھی ڈرا دیا تھا۔ ہمیں اپنی کمزوری کا علم تھا کہ اگر کتاب اٹھا لی تو ختم کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے، اس لئے کتاب کھولنے کی بجائے سامنے شیلف پر سجا دی ویسے تو کتاب کی ضخامت دیکھ کر ہی اشفاق کی فیض سے محبت پر یقین آ جاتا ہے۔

اب کتاب کھولی تو احساس ہوا کہ یہ صرف محبت نہیں، یہ تو اس سے بڑھ کر کچھ ہے۔ محبت کا لفظ سن کر تو ایک نرم، ملائم جذبے اور دریا کی روانی کا خیال آتا ہے۔ یہ تو عشق ہے، شوریدہ سر عشق، سمندر کی لہروں کی مانند پر جوش اور پر شور۔ اشفاق نے فیض سے عشق کیا اور بے پناہ عشق کیا ہے۔ فیض کا عشق اشفاق کی آبرو بن چکا ہے۔ اس کے لئے وہ پروانے کی طرح جل مرنے اور آگ کے دریا میں ڈوب کر جانے کو تیار رہتے ہیں۔

پروفیسر فتح محمد ملک دیباچہ میں لکھتے ہیں، ’آج فیض تو ہم میں موجود نہیں مگر خوش نصیبی سے اشفاق حسین کے سے فیض شناس ہمارے درمیان موجود ہیں۔ فیض ان کے دل میں زندہ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نعمان الحق کی ”کلیات فیض“ کو تمام تر اغلاط سے پاک کر کے از سر نو شائع کر دینے کا اہتمام کیا ہے۔ مزید براں انہوں نے اپنے ابتدائیہ بعنوان ”فیض کی محبت میں“ بڑے انہماک کے ساتھ فیض کے فکر و فن کو ان کے انقلابی عمل کی روشنی میں سمجھنے سمجھانے کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔

کتاب کے مقدمے میں اشفاق احمد لکھتے ہیں ’نسخہ ہائے وفا‘ کی اولین اشاعت کے تقریبا پینتیس سال بعد ڈاکٹر نعمان الحق نے اس کی از سرنو تدوین و تحقیق کی اور اپنے مقدمے کے ساتھ نیا تدوین شدہ ”نسخہ ہائے وفا ’2019 میں شائع کیا ہے۔ اس کار تدوین و تحقیق میں سب سے پہلے تو انہوں نے فیض کے مختلف مجموعوں پر تاریخ اشاعت نہ ہونے کی نشاندہی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا گلا بھی کیا ہے حالانکہ خود ان کی اپنی کتاب جسے مکتبہ کارواں لاہور نے“ نسخہ ہائے وفا۔ کلیات فیض کے نام سے شائع کیا ہے، اس پر بھی تاریخ اشاعت موجود نہیں ہے۔

فیض کے پانچویں مجموعے ’سر وادی سینا‘ کی ایک نظم جس کا عنوان بھی انہوں نے سر وادی سینا ہی رکھا تھا۔ اس نظم پر بھی تدوین شدہ نسخے میں حاشیہ آرائی کی گئی ہے اور اس کے نصف متن کو حاشیے میں ڈال دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حاشیے میں لکھے گئے اس نظم کے انیس مصرعوں میں سے سولہ مصرعوں کو بے معنی اور بے وزن بھی کر دیا ہے۔

اشفاق احمد کی دانست میں اس نظم کو مسخ کرنے کا سبب، اس میں پیش کیے گئے فیض کے وہ انقلابی خیالات ہیں جو ایک ذہنی اور فکری طور پر منجمد معاشرے کے لئے، ایک خاص دور میں ہر گز قابل قبول نہیں تھے۔

اسی طرح فیض کی مشہور نظم ”و یبقیٰ وجہ ربک“ تو سرے سے غائب کر دی گئی۔ بھلا ضیا الحق جو خود کو شاید انا الحق ہی سمجھتے تھے، ان کے دور میں فیض کا یہ کہنا کیسے برداشت کیا جا سکتا تھا کہ اٹھے گا انا الحق کا نعرہ/اور راج کرے گی خلق خدا/جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ اقبال بانو نے جب اس نظم کو اپنے خوبصورت انداز میں گایا اور وہ عام لوگوں تک پہنچی تو لوگ فیض کے کلیات میں اس نظم کو تلاش کرنے لگے، مگر وہاں پر تو اس پوری نظم کو ہی سنسر کر دیا گیا تھا۔ البتہ یہ نظم فیض کے مجموعے ”میرے دل میرے مسافر“ میں بہت پہلے شائع ہو چکی تھی۔ لوگ عموماً اس نظم کے پہلے مصرعے ’ہم دیکھیں گی۔ ہم دیکھیں گے‘ ہی کو گنگناتے رہے اور ان کی اس انقلابی نظم پر سر دھنتے رہے۔

ڈاکٹر نعمان الحق کو شاید اس نظم کی یہ عوامی مقبولیت اچھی نہیں لگی۔ ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ:

” فیض کی وہ منظومات جن کو سنسنی خیز اور باغیانہ پیرایہ دینا ممکن ہے، لوگ بس ان ہی کو گاتے پھرتے ہیں۔ اور ان ہی کو فیض کی کلیت جانتے ہیں اور فیض کی مقبولیت کا مدار یہی ’مزاحمتی‘ منظومات بن چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال ’ہم دیکھیں گے‘ والی میرے دل میرے مسافر کی نظم ہے۔ یہ نظم گلی گلی گائی گئی ہے لیکن اس کے پرستاروں میں اکثریت ان لوگوں کی نظر آتی ہے جو اس کا عنوان تک نہیں جانتے۔ اور اگر ان کو یہ عنوان دکھا بھی دیا جائے“ و یبقیٰ وجہ ربک ”جو ایک قرآنی آیت کا ٹکڑا ہے۔ تو وہ اس کو آسانی سے پڑھ بھی نہیں پائیں گے۔

اس پر صرف اشفاق کو ہی نہیں ہم سب کو بھی غصہ آئے گا۔ اور ہم اشفاق سے اتفاق کریں گے کہ ”خلق خدا کے بارے میں یہ رویہ کہ وہ کم علم اور ذہانت سے عاری ہیں، ہماری اشرافیہ کا ہمیشہ سے مزاج رہا ہے۔ اس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے۔“

”ڈاکٹر نعمان الحق کی کتاب میں حاشیہ تو موجود ہے لیکن اکثر یہ نہیں پتہ چلتا کہ وہ حاشیہ کس کا لکھا ہوا ہے۔ کلیات مرتب کرنے والے کا یا اس شاعر کا جس کے کلام کی تدوین کی گئی ہے؟ البتہ خود انہوں نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ کلام فیض کے مختلف نسخوں میں جو اختلافات یا کمی بیشی تھی، ان سب کو اپنے شاگردوں کے تعاون سے خاصی حد تک دور کر دیا ہے۔ ہونہار شاگردوں کی خدمت میں تہنیت پیش کرنی چاہیے“

اشفاق کی رائے میں ’حاشیہ یا تو اختلافی نوٹ ہوتا ہے یا وضاحتی بیان ہوتا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا لیکن ڈاکٹر نعمان الحق نے کسی جگہ بھی حذف شدہ شعر یا مصرعے کو متن میں شامل ہی نہیں کیا ہے بلکہ صرف حاشیے میں انہیں لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی جو چیز متن میں شامل ہونی چاہیے تھی، اسے حاشیے میں ڈال دیا۔ اس پر ستم یہ ڈھایا کہ حاشیے میں یہ تک نہیں بتایا کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟ یعنی نماز تو پڑھ لی، لیکن وضو نہیں کیا۔ ایک طرح سے بالکل الٹی گنگا بہائی ہے۔

فیض کے کلیات کی تدوین کرتے ڈاکٹر نعمان الحق نے اپنے مقدمے میں یہ بات بڑے درد مندانہ انداز میں لکھی ہے کہ:

” فیض نے اپنے مجموعوں کی طباعت اور پیشکش پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ چنانچہ ان کے شعری مجموعے جیسے تیسے چھپتے رہے۔ ان میں کتابت کی غلطیاں بھی موجود تھیں۔ املا بھی نا ہموار تھا“ ،

اشفاق کا کہنا ہے کہ کتابت کی غلطیاں تو سمجھ میں آتی ہیں مگر فیض کا املا نا ہموار تھا، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک ایسا عہد ساز شاعر جو اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور پنجابی زبان پر مکمل عبور رکھتا ہو، کیا وہ اردو املا سے اتنا بے بہرہ ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام کی تدوین کرتے ہوئے اس مسئلے کو بھی معرض بحث میں لایا جائے؟

ڈاکٹر نعمان الحق نے اپنے تئیں کلیات فیض میں نا ہموار املا کی درستگی اور کتابت کی غلطیوں کو درست کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے۔ وہ تو صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔ مگر کتابت یا کمپوزنگ کی ساری غلطیوں کی ساری ذمہ داری شاعر پر تو نہیں ڈالی جا سکتی۔

اشفاق نے فیض کے تمام شعری مجموعوں، نسخہ ہائے وفا کے دونوں نسخوں اور ان کے کلیات ’سارے سخن ہمارے‘ کو سامنے رکھ کر ان میں لکھے ہوئے مصرعوں اور اعراب و علامات کے ساتھ چھپے ہوئے اشعار کا ڈاکٹر نعمان الحق کے مرتبہ کلیات سے موازنہ کیا ہے۔ اور ان سے یہ ادبی اختلاف صرف فیض کی محبت میں کیا ہے کہ اپنے پسندیدہ شاعر کی خوبصورت شاعری کا حسن متاثر نہ ہو اور اس کے چاہنے والے اس کے کلام کو پڑھتے ہوئے کسی قسم کی دشواری محسوس نہ کریں۔

سچ پوچھئے تو اشفاق نے فیض سے محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments