ہمارے معاشرے کے لگڑ بگھے


ہائینا (Hyena) جس کو مقامی زبان میں لگڑبگھا یا لگڑ بگڑ کہا جاتا ہے ایک گوشت خور جانور ہے یعنی درندہ ہے اس درندے کی نسل معدوم ہوتی جا رہی ہے، اب صرف اس کی چار اقسام باقی بچی ہیں۔ داغدار (spotted) ، دھاری دار (striped) ، بھورا (brown) اور بھٹ بھیڑیا (aardwolf) ۔ پاکستان میں بھٹ بھیڑیا کی قسم پائی جاتی ہے۔ لگڑ بگھے افریقہ اور برصغیر پاک و ہند کے مقامی درندے ہیں۔ داغدار لگڑبگھے جو سب سہارا افریقہ میں پائے جاتے ہیں لگڑبگھوں کی سب سے خطرناک قسم ہیں باقی تین اقسام معمولی درندوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہاں داغدار لگڑ بگھے کی خصوصیات پر بات ہو گی۔

داغدار لگڑبگھے کو درندوں کے خاندان میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس کی ذہانت بن مانس کے مساوی ہے۔ اس کا جبڑا اتنا طاقتور ہے کہ یہ ہاتھی کی ہڈیوں کا بھی چورا کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑے جانور کی جلد اور ماس ایسے پھاڑ ڈالتا ہے جیسے ریشم کا کپڑا۔ یہ شیروں کی طرح منظم گروہوں میں رہتے ہیں۔ ان کا قبیلہ 10 سے لے کر 100 لگڑ بگھوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے قبیلے کی سربراہ مادہ ہوتی ہے۔ ان میں موقع کا فائدہ اٹھانے کی جو خاصیت پائی جاتی ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں ہے اور یہی خاصیت انہیں سب جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان میں ایک حس پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے شکار کی کمزوری کو جانچ لیتے پیں اور پورے جھنڈ میں سے کمزور جانور جو بظاہر نارمل دکھتا ہے کو نشانہ بناتے ہیں۔

تقریباً تمام ثقافتوں میں لگڑبگھوں کو ایک شیطانی اور ظالم جانور مانا جاتا ہے، شاید اس کی وجہ ان کی انسانی ہنسی جیسی خوفناک آواز ہے اور دوسرا یہ کہ یہ اپنے شکار کو زندہ ہی نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں۔

داغدار لگڑبگھے کے شکار کرنے کی تکنیک جاننے سے تعلق رکھتی ہے یہ جس طرح ماحول اور اپنے شکار کی جسامت اور رفتار کی بنیاد پر اپنی شکار کرنے کی سٹریٹجی تشکیل دیتے ہیں وہ بے مثال ہے۔

لگڑبگھے اپنے سے بڑے اور طاقتور جانور کا شکار گروہ کی شکل میں کرتے ہیں، اپنے سے چھوٹے جانور کا شکار لگڑبگھا اکیلا ہی کر لیتا ہے۔ لگڑ بگھوں کے شکار کے لیے جنگل کے وہ علاقے زیادہ موزوں ہوتے ہیں جہاں جانور خوراک کی خاطر ہجرت میں مشغول رہتے ہیں۔

جب یہ وائلڈ بیسٹ جو کہ بیل جیسا جانور ہے یا زیبرا کا شکار کرتے ہیں تو ان کی تکنیک کچھ یوں ہوتی ہے کہ ایک لگڑبگھا پورے جھنڈ میں گھس کر افراتفری مچا دیتا ہے اس افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقی لگڑ بگھے سب سے کمزور جانور تاڑ کر اس کو جھنڈ سے علیحدہ کر دیتے ہیں۔ ایک لگڑ بگھا شکار پر جھپٹتا ہے اور باقی اسے دوسرے جانوروں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ شکار کو دوڑا دوڑا کر اس حد تک تھکا دیتے ہیں کہ وہ جانور مزاحمت کرنا چھوڑ دیتا ہے اور پھر اسے زندہ ہی نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں۔

سکھر کی ایک غریب ہندو لڑکی پوجا کماری کے قتل سے جڑے ایک حالیہ دل خراش واقعے نے ہمارے معاشرتی نظام پر ایک مرتبہ پھر انگنت سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسے لگڑ بگھوں سے بھرا پڑا ہے جو کہ بڑے منظم طریقے سے شکار کرتے ہیں۔ ان لگڑبگھوں کا انتخاب بھی معاشرے کے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں ہوتی ہیں۔

یہ لگھڑ بگھے کمزور غریب گھرانوں کی کم عمر خوبصورت لڑکیاں تاڑ کر رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی حملہ آور ہوتے ہیں ان کی تکنیک جنگل کے لگڑ بگھوں سے مطابقت رکھتی ہے جس کی بنا پر یہ اپنے شکار کا تعاقب کرتے کرتے اس کو اتنا تھکا دیتے ہیں کہ وہ مزاحمت کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے آپ کو ان درندوں کے حوالے کر دیتا ہے تاکہ وہ اسے زندہ نوچ کھائیں۔

اگر شکار ان لگڑ بگھوں سے طاقتور ہو تو یہ گروہ میں شکار کرتے ہیں۔ اس گروہ نے اپنی اپنی ذمہ داریاں بانٹی ہوتی ہیں۔ کچھ لگڑ بگھے شکار کو اس کے جھنڈ یعنی خاندان یا قبیلے سے علیحدہ کرتے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یہ شکار کو ڈراتے ہیں یا پیسے کا لالچ دیتے ہیں یا اس کے ذہن میں اس کے مذہب یا سماجی حیثیت کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں، ظاہر ہے اس کے لیے کم عمر کچا ذہن بہت موزوں ہوتا ہے۔ کوئی ایک لگڑ بگھا پھر اس شکار پر جھپٹتا ہے، باقی لگڑ بگھے شکار پر جھپٹنے والے کو مذہبی، قانونی اور سماجی تحفظ مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داری آسانی سے سرانجام دے سکے۔

اگر شکار کمزور ہو تو ایک لگڑ بگھا ہی کافی ہوتا ہے چھوٹی بچی زینب کیس میں ایسا ہی ایک لگڑ بگھا منظر عام پر آیا تھا۔

جنگل کے لگڑ بگھوں کی طرح ہمارے معاشرے کے لگڑ بگھوں میں بھی ایک حس بہت تیز ہوتی ہے جس کی بنا پر یہ شکار کی کمزوری کو جانچ لیتے ہیں۔ جس طرح جنگل کے لگڑبگھے شکار پر جھپٹنے سے پہلے جھنڈ میں افراتفری اور خوف پھیلاتے ہیں اسی طرح یہ بھی معاشرے کے کمزور طبقات میں مذہبی، معاشی اور سماجی انتشار پھیلا کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مسیحی اور ہندو غریب گھرانے کی کم عمر لڑکیوں کا اغوا اور مذہب کی جبری تبدیلی کوئی سادہ مسئلہ نہیں ہے یہ ایک منظم اور مہارت سے بھرپور شکار کی مہم ہے جس میں شکار کو زندہ نوچ کر کھایا جاتا ہے۔

اگر ہم کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے بہتر قانون سازی اور پالیسی تشکیل دے کر ماحول کو ان کے لیے محفوظ بنا سکیں اور معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے ان کے لیے تعلیم، ہنر اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کریں تو معاشرے میں آزاد پھرتے لگڑ بگھوں کے شکار میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے اور کئی زندگیاں ان لگڑ بگھوں کا نوالہ بننے سے بچ سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments