خون میں لت پت پوجا کماری کا نوحہ اور پولیس کا بدترین رویہ


21 مارچ کو دو پہر کے وقت سکھر کے علاقے روہڑی کے قریب گاؤں فتح محمد میں اپنے گھر کے اندر سفاک وحشیوں کی 6 گولیوں کا نشانہ بننے والی پوجا کماری ایک جوان بیٹے کی طرح اپنے ابو کا ہاتھ بٹانے والی بہادر اور خود دار بیٹی تھی۔ گھر والوں کے گزران کے لیے پوجا کے والد مزدوری کرتے ہیں۔ پوجا نے سوچا کہ اس کے والد بڑھاپے میں اتنی محنت اور مشقت کر کے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں اگر ان کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ بھی کام کر کے اپنے والد کا سہارا بنتا لیکن بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے پورا بوجھ اکیلے والد کے کمزور اور ناتواں کندھوں پر ہے۔ پوجا کماری نے اپنے والد کا سہارا بننے کا فیصلہ کیا اور کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر سلائی مشین لے کر اپنے گھر میں کام کرنا شروع کر دیا یوں پوجا نے اپنے والد کا نصف سے زیادہ بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تھا لیکن اب پوجا کماری کے بہیمانہ قتل کے بعد نہ صرف وہ بوجھ بوڑھے باپ صاحب اوڈ کے کمزور کندھوں پر آن پڑا بلکہ بیٹوں جیسی جوان اور ہونہار بیٹی کی لہو لہان میت کو کاندھا دینے کے بعد صاحب اوڈ اندر اور باہر سے مکمل طور پر ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں۔

پوجا کماری کے والد صاحب اوڈ کا کہنا ہے کہ بیٹی پوجا کی ہمت نے مجھے جوان کر دیا تھا لیکن اب میرے حوصلے ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم سب کی توجہ کا مرکز پوجا کو یوں گولیوں سے چھلنی کیا جائے گا۔ پوجا کماری کو صرف اس جرم میں قتل کر دیا گیا کہ اس نے اپنی عزت بچانے کے لیے خونخوار درندوں سے مزاحمت کی۔ وہ پوجا کماری کے گھر میں گھس آئے تھے۔ پوجا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ پوجا کے انکار پر انہوں نے پوجا کو اغوا کرنے کی کوشش کی تو پوجا کماری نے اپنی قینچی کو ہتھیار بنا کر مزاحمت کی جس پر اسے بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔

پوجا کماری کے قتل سے پہلے اور قتل کے بعد سکھر پولیس کا کردار انتہائی شرمناک رہا۔ پوجا کماری کے قتل سے 2 ہفتے قبل پوجا کے والدین نے پولیس کو درخواست دی تھی کہ ملزم واحد بخش لاشاری اور اس کے ساتھیوں سے بیٹی پوجا کی جان کو شدید خطرات ہیں۔ ملزمان بیٹی پوجا کو اغوا اور قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اگر ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو وہ بیٹی کو جان سے مار دیں گے لیکن پولیس نے کوئی تحرک نہیں لیا تو پوجا کے والدین نے مجبوراً احتجاجی مظاہرے بھی کیے کہ ملزمان کے خلاف کارروائی کر کے ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ لیکن پولیس نے ان کے احتجاج کو نظرانداز کر دیا۔ ملزمان نے واقعے سے ایک ہفتہ قبل بھی پوجا کے گھر پر دھاوا بولا تھا پوجا کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بار بار رپورٹ درج کرانے کے باوجود پولیس نے ان کی ایک نہیں سنی۔ اور ملزمان کو اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کا پورا موقع فراہم کیا۔ بالآخر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا ملزمان نے اپنا کام آسانی سے کر دیا۔ یہ تو واقعے سے پہلے پولیس کا رویہ تھا۔ واقعہ کے بعد پولیس نے جو گھناؤنی حرکتیں کی ہیں اس سے پولیس کا کردار مزید مشکوک ہو گیا ہے جب قتل کے بعد بھی پولیس افسران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تو پوجا کے ورثاء نے میت کے ساتھ روہڑی میں نیشنل ہائی وے پر پرامن احتجاجی دھرنا دے دیا۔

اس دوران پولیس نے پوجا کے والدین کو تسلی دینے کے بجائے ایس ایچ او بشیر جاگیرانی نے دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر پوجا کماری کی نعش والی چارپائی کو دھکے دے کر میت کی بے حرمتی کی اور پوجا کماری کے والدین کے ساتھ بدتمیزی کی جن پر پہلے ہی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ بعد ازاں جب معاملہ میڈیا پر اجاگر ہوا تو پولیس کو پوجا کے ورثاء کے ساتھ بہتر انداز میں مذاکرات کرنے پڑے اور ایک اہم ملزم واحد بخش لاشاری کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے پوجا کے قتل کیس میں دہشتگردی کی دفعات کو شامل نہیں کیا۔ ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی سکھر بتائیں کہ دن دیہاڑے سرعام گاؤں پر دھاوا بولنا گھر میں گھس جانا ایک جوان لڑکی کو قتل کرنا اور پھر فرار ہوتے وقت فائرنگ کر کے پورے علاقہ کے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا دہشتگردی نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟

پوجا کماری کا قتل دہشتگردی کا کیس ہے۔ دہشتگردی ایکٹ لاگو نہ کرنا واضح نا انصافی ہے۔ یوں سکھر پولیس کا کردار روز اول سے نہایت افسوسناک اور قابل غور رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر پوجا کماری کے قاتلوں کے ساتھ پولیس کو اتنی الفت کیوں ہے؟ اگر پوجا کے والدین کی درخواست پر انہیں بروقت تحفظ فراہم کیا جاتا تو پوجا کماری کی جان بچ سکتی تھی۔ دیکھا جائے تو پولیس نے ایک طرح سے ملزمان کی سہولت کاری کی ہے۔ اگر یہ واقعہ سندھ کے بجائے کہیں پنجاب میں ہوا ہوتا تو ابھی تک بلاول زرداری صاحب نہ صرف وہاں پہنچ چکے ہوتے بلکہ اس واقعہ کی بنیاد پر عمران خان سے استعفی کا مطالبہ کر چکے ہوتے لیکن اس واقعہ پر بلاول زرداری نے تاحال نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے کسی مقامی منتخب نمائندہ نے پوجا کے گھر پہنچ کر تعزیت کرنے کی زحمت کی ہے۔ پوجا کماری کے لہو لہان جسم و روح کا درد بھرا سوال ہے کہ اسے کس جرم کی پاداش میں موت کی نیند سلا دیا گیا؟

لیکن حکومت سندھ اور سکھر پولیس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ پوجا کماری کی عمر ابھی صرف 18 برس تھی۔ اس نے بہت سارے خواب دیکھے تھے جو ابھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اس پھول کو کھلنے سے پہلے مسل دیا گیا۔ اس کے جذبات احساسات اور اس کے خاندان کی خوشیوں کا ناحق خون کر دیا گیا لیکن اب 18 سالہ پوجا کماری جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی ہے۔ اس کے لال خون سے انقلاب کی آمد کی امید نے جنم لیا ہے۔ پوجا کماری کی قربانی نے ظلم اور بربریت کے سد باب کے لیے ایک جدوجہد کا سنگ بنیاد رکھا ہے جسے پایہ۔

تکمیل تک پہنچانے کے لیے طاقتور طبقات کے خلاف اجتماعی عوامی جہد مسلسل کرنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً سندھ کی بیٹی پوجا کماری کے بہیمانہ قتل پر سندھ کے فکری رہبر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی روح کو تکلیف پہنچی ہوگی اور شاید لطیف سائیں کی زخمی روح نے تڑپ کر کہا ہو گا میرا سندھ ایسا تو نہیں تھا۔ پوجا کماری کے نازک جسم میں داخل ہونے والی گولیوں نے سندھی سماج کو پیغام دیا ہے کہ اگر وہ اس ظلم و جبر کی طویل تاریک رات کے خلاف نتیجہ خیز مزاحمت نہیں کریں گے تو پھر کسی کی چادر و چار دیواری کا تقدس نہیں بچ پائے گا اور پوجا کماری کی طرح سندھ کی ہر بیٹی کی جان خطرے میں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments