سیاسی مشورے


پاکستانی سیاست اس وقت فیصلہ کن موڑ پر ہے اور جس طرح کے حالات وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے بعد پیدا ہوئے ہیں، ایسے میں ملک کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، اگر سیاست دان بھی ذاتی مفاد اور اناء کو قربان کر کے ملک کے لیے اقدامات کریں گے تو بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔ فوج کی اگرچہ کہیں نہ کہیں مداخلت موجود ہوگی لیکن ظاہری طور پر اس دفعہ انہوں نے نیوٹرل ہو کر دکھایا ہے ورنہ جس طرح کی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اس صورت حال میں فوج کے پاس ملک کو ٹیک اوور کرنے کا بہترین موقع تھا۔

سپریم کورٹ نے ضرور اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہے لیکن عوام میں اس چیز کا غم و غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اتوار کی شام سے ہی عوام کا جو ریلا مختلف شہروں میں نکل چکا ہے اس سے عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ عمران خان کی شخصیت نے انقلابی روح پھونک دی ہے نوجوانوں کے اندر اور اگر نوجوان اپنی قوت دکھانے پہ آ جائیں تو دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی قوتوں کا غلط استعمال کرایا جائے اور سامراج انہیں اپنے ہی فائدے کے لیے استعمال کرے، ان سے دنگے فساد اور جلاؤ گھیراؤ کرایا جائے۔

دوسرا یہ کہ ان کی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے، ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ملک میں سیاسی منظرنامہ تبدیل کیا جائے۔ اگرچہ پاکستان میں اتنے سیاسی ظرف کا مظاہرہ کسی حکمران کی طرف سے دیکھنے کو نہیں ملا لیکن پھر بھی شاید اس دفعہ کوئی معجزہ ہو اور سیاست دان ہوش کے ناخن لیں۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام نہ ہو۔ عمران خان کو بھی اپنے حامیوں کی قوت کو درست سمت میں استعمال کرنا چاہیے اور کسی قسم کے اشتعال اور بدمزگی سے روکنا چاہیے۔ اس کے علاوہ عمران خان کو اگر اجتماعی تبدیلی چاہیے تو مختلف اتحاد جیسے کسان اتحاد وغیرہ اور خواتین کی تنظیموں کو بھی ساتھ شامل کرنا چاہیے جو اگرچہ غیر سیاسی ہیں لیکن ان کا اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے اپنے اپنے حلقوں میں۔

احتجاجی اور انقلابی سیاست کے علاوہ عمران خان کو پارلیمان کی جنگ میں بھی مکمل طور پر حصہ لینا چاہیے۔ اسمبلی میں بیٹھ کر اپوزیشن کو ٹف ٹائم دیں اور ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ سپورٹس مین سپرٹ دکھائیں۔ اگر فواد چوہدری اور ایسے کچھ ناپختہ اور جذباتی اراکین کی بات مان کر عمران خان اسمبلی سے استعفٰی دیتے ہیں تو یہ ان کا ہار ماننا شمار ہو گا، میری نظر میں یہ فیصلہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ”آ بیل مجھے مار“ کے مصداق یہ اپوزیشن کو مکمل اختیار دینے والی بات ہے کہ اب آپ جو چاہیں ترامیم کریں اور ہم تو میدان میں رہیں گے ہی نہیں۔

عمران خان کو سیاسی جدوجہد کرنے کے لیے اسمبلی میں رہنا ہو گا اور اپوزیشن کرنی ہوگی۔ دوسرا آج دو بجے قائد ایوان کا انتخاب ہونا ہے اس میں مکمل طور اپنی موجودگی دکھائیں اور منحرف اراکین اور اپوزیشن کو ساتھ ملا کر چلیں تو تحریک انصاف کے لیے حالات سازگار ہوسکتے ہیں کیوں کہ بہ ہرحال وہ چند ووٹوں کے فرق سے موجود ہیں، خود کو مظلوم اور سیاسی شہید بنانے کی بجائے اپنی پوزیشن کا استعمال کریں اور وہ حکمران جماعت رہ چکی ہے اسے اپنے ووٹوں کا درست استعمال کر کے آئینی ترامیم کو روکنا چاہیے۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے معاملے میں انہیں متحدہ حکومت کو اپنی من مانی نہیں کرنے دینی چاہیے۔

ایک اور بات جو کہ تحریک انصاف کے حامیوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان فوج یا کسی ادارے کے خلاف گالیاں دینے یا گھیراؤ کرنے سے پرہیز کریں پاک فوج کو گالیاں دینے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے پہلے نیوٹرل رہ کر حالات کو بگاڑنے سے روکا آپ ان کے اس اقدام کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ عمران خان کے ووٹنگ نہ کرانے اور رات گئے تک ووٹنگ کے عمل کو کھینچنے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس مارشل لاء کا بہترین جواز تھا لیکن انہوں نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آگ میں کودنے کی کوشش نہیں کی۔

آپ کی جنگ نظام سے تو ہو سکتی ہے لیکن اس جنگ میں منافرت اور معاشرتی بگاڑ پھیلانے سے گریز کریں ورنہ یہ تبدیلی کے نعرے یہیں کے یہیں رہ جائیں گے اور عمران خان پر مشکل وقت آ جائے گا کیوں کہ جب اوپر سے خاموش کرانے کی کوشش کی گئی تو سارا جوش و جذبہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ صبر و تحمل اور عقل و دانش کا مظاہرہ کریں۔ آئینی طور پر آپ کی ہار تھی جس کو قبول کرنا بحیثیت پاکستانی آپ پر فرض ہے، ہاں لیکن اگلی دفعہ کے لیے کوشش ضرور کریں۔

اگر اس دفعہ جذباتی پن کا مظاہرہ کر کے سارا الزام فوج اور اداروں پر گھڑنے کی کوشش کریں گے تو اگلی دفعہ جب انہی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر حکومت کر رہے ہوں گے تو قول و فعل کی صداقت کہاں رہ جائے گی؟

اگر عمران خان بذات خود فوج یا اس کے چیف کے خلاف کوئی بھی لفظ بولنے سے کترا رہے ہیں تو ان کے کارکنان کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے اور خوامخواہ ملک دشمن عناصر اور ہائبرڈ وار کے ماہرین کے ہاتھ میں کٹھ پتلی نہ بنیں۔ اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے نشیمن پہ بجلیاں نہ گرائیں ورنہ مستقبل میں ہم پھر کسی قابل افسوس صورت حال کا شکار ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments