ایک نیا آغاز!


ایڈٹ ہو گیا ہے ف ن

سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور صدر عارف علوی کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ 9 اپریل بروز ہفتہ تحریک عدم اعتماد پر آئینی طریقہ کار کے مطابق ووٹنگ کروائی جائے۔ امید کی جا رہی تھی کہ عدالتی حکم کے بعد یہ تمام مرحلہ آئین و قانون کے مطابق طے ہو جائے گا۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ ہفتے کے روز صبح ساڑھے دس بجے سے رات پونے بارہ بجے تک ساری قوم انتظار کی سولی پر لٹکی رہی۔

پارلیمان میں ایک سرکس جاری تھا۔ تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان طے شدہ منصوبے کے مطابق طویل تقاریر کرتے رہے۔ سپیکر بار بار وقفے کا اعلان کر کے اپوزیشن اور قوم کا صبر آزماتے رہے۔ ٹیلی ویژن چینلز لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ اور تجزیے پیش کرتے رہے۔ ان صبر آزما لمحات میں صحافیوں نے اسپیکر اسد قیصر سے سوال کیا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری کے مطابق ووٹنگ کروانے کا فریضہ کب سر انجام دیں گے؟ اسد قیصر صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جو اباً ایک موٹی سی گالی صحافیوں کو دے ڈالی۔

رات گئے یہ خبریں آنے لگیں کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے عدالت کے دروازے کھولنے کی ہدایت کر دی ہے۔ عدالتی عملے کو طلب کر لیا گیا ہے۔ سینئر صحافی اور آئینی ماہرین تجزیہ کرنے لگے کہ آئینی عمل میں ایک مرتبہ پھر رکاوٹ ڈالنے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر ذمہ داران کے خلاف توہین عدالت عائد ہو سکتی ہے۔ اس افراتفری اور بے یقینی کے دوران اسلام آباد سے یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ مارشل لاء لگنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ رات بارہ بجنے سے پندرہ بیس منٹ پہلے اسپیکر اسد قیصر ایوان میں تشریف لائے۔ اپنے منصب سے استعفے کا اعلان کیا اور سپیکر کی کرسی سردار ایاز صادق کے حوالے کی۔ ایاز صادق نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ آخر کار 174 ووٹوں کی اکثریت سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت رخصت ہو چکی ہے۔ بظاہر اس سارے عمل میں اپوزیشن اتحاد پی۔ ڈی۔ ایم فتح یاب ہوا جبکہ تحریک انصاف شکست سے دوچار ہوئی۔ لیکن میری نگاہ میں یہ محض کسی ایک سیاسی گروہ کی ہار اور دوسرے سیاسی گروہ کی جیت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ سارا عمل آئین کی فتح اور غیر آئینی رویے کی شکست ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کا قضیہ عدالت عظمیٰ میں جانے کے بجائے پارلیمان کے اندر ہی نمٹا لیا جاتا۔

عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا پوزیشن کا آئینی و قانونی حق ہے۔ یہ تحریک ناکام بھی ہو سکتی ہے اور کامیاب بھی۔ اپوزیشن نے اکثریت حاصل کرنے کے بعد یہ تحریک پیش کی تھی۔ تحریک انصاف کے اپنے اراکین بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کہا گیا کہ اپوزیشن نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے جوڑ توڑ کی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں یہ جوڑ توڑ ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ 2018 میں عمران خان کو اکثریت دلانے کے لئے جہانگیر ترین بھی جوڑ توڑ کرتے رہے۔

جہاز بھر بھر کر اراکین کو بنی گالہ پہنچایا گیا۔ یقینی طور پر اس طرح کے کسی عمل کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کی سیاست سے یہ روایات رخصت ہونی چاہییں۔ لیکن ہوا یہ کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں بھی اپوزیشن میں جا بیٹھیں۔ منحرف اراکین کے بغیر ہی اپوزیشن نے مطلوبہ تعداد حاصل کر لی تھی۔ عمران خان کو بخوبی معلوم تھا کہ وہ اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں آئینی اور جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کھلے دل سے یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن کرسی بچانے کے لئے  وہ تماشا ہوا کہ خدا کی پناہ۔ یہ تماشے بازی دیکھ کر خیال آتا رہا کہ اقتدار کیا ایسی چیز ہے کہ اسے بچانے کے لئے تمام جمہوری، آئینی اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جائے؟ ملکی وقار کو داؤ پر لگا دیا جائے؟

اقتدار کی کرسی ہمیشہ رہنے والی شے نہیں۔ عمران خان سے پہلے بھی کئی وزرائے اعظم آئے اور رخصت ہوئے۔ فوجی وردی میں ملبوس طاقتور ترین صدور کو بھی ایک دن جانا پڑا۔ گزشتہ دور میں نواز شریف ایک عدالتی فیصلے کے بعد رخصت ہوئے تھے۔ اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کو بھی توہین عدالت کی وجہ سے اپنے منصب سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ کسی زمانے میں بھی وہ سرکس نہیں لگایا جو اس مرتبہ دیکھنے کو ملا۔ شہباز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں تو انہیں بھی ایک دن جانا ہو گا۔

سنتے ہیں کہ بھارت میں اب تک سترہ مرتبہ عدم اعتماد کی تحاریک پیش ہو چکی ہیں۔ وہاں بھی کوئی تماشا نہیں لگا۔ تا دم مرگ وزارت عظمیٰ رکھنے کا رواج تو دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں ہے۔ نہ جانے پاکستان میں ہونے والے تماشے پر دنیا ہمارے ملک کے بارے میں کیا سوچتی ہو گی؟ یہ صورتحال دیکھ کر افسوس ہوتا رہا کہ کاش یہ سب کچھ اس طرح نہ ہوتا۔ عمران خان رخصتی کا با عزت طریقہ اختیار کرتے۔ اگرچہ ان کی حکومتی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔

ان کے دور حکومت میں عوام کی مشکلات و مصائب میں اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ووٹرز کا ایک بڑا حلقہ ان سے مایوس ہو گیا۔ اس کے باوجود تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کے چاہنے والے اور ان کو ووٹ دینے والوں کا ایک حلقہ ابھی موجود ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اتار چڑھاؤ آتا ہی رہتا ہے۔ کاش عمران خان اس آئینی عمل میں غیرآئینی رکاوٹیں نہ ڈالتے اور سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے۔ اس طرح ان کی توقیر میں اضافہ ہوتا۔

اس سیاسی کھیل نے قومی معیشت پر نہایت منفی اثر ڈالا۔ ڈالر کی قیمت آسمانوں کو چھونے لگی۔ رمضان کے مہینے میں جو بد کلامی سننے دیکھنے کو ملی وہ الگ۔ بس اللہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ ہمارے اہل سیاست کو فہم و فراست عطا فرمائے۔ آمین۔

اگر سب کچھ طے شدہ آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے تو چند دن بعد میاں شہباز شریف اس ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس پر خوش ہیں۔ تاہم شہباز شریف کے لئے وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج ہرگز ثابت نہیں ہو گی۔ سچ پوچھیے تو جس حالت میں وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے، اس تناظر میں ان کی وزارت عظمیٰ کانٹوں کا ایک بستر ہے۔ ملکی معیشت کی حالت ابتر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیں۔

روپے کی قدر بدترین سطح تک گر چکی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کی ستر سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لئے ہیں۔ ان قرضوں کا بوجھ برداشت کرنا ہے۔ اپنی حکومت کے اختتام پر مسلم لیگ (ن) ضرورت سے زیادہ بجلی چھوڑ کر گئی تھی۔ اب سنتے ہیں کہ بجلی قومی ضرورت سے کہیں کم رہ گئی ہے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام روکنے کی وجہ سے چین ہم سے ناراض ہے۔ سی پیک کا منصوبہ بحال کرنا ہے۔ دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اٹھا چکی ہے۔ اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ عوام الناس مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ انہیں ریلیف فراہم کرنا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا۔ عمران خان کے دور میں اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں زبردست کٹوتی کی گئی۔ جامعات کو مناسب فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ سب سے بڑھ کر انتخابی اصلاحات کر کے جلد از جلد عام انتخابات کا انعقاد کروانا ہے۔ یہ اور بہت سے دوسرے مسائل شہباز شریف کے منتظر ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی شہباز شریف کے فرائض منصبی میں شامل ہو گا۔

شہباز شریف پنجاب میں اپنی کار کردگی کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ ملک کی سمت درست کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ دعا بھی ہے کہ عمران خان اپوزیشن میں رہ کر سڑکیں آباد کرنے کے بجائے پارلیمان میں رہ کر تعمیری کردار ادا کریں۔ اللہ پاک میرے ملک کو ایک نیا آغاز نصیب فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments