مرنے کو پشتون حاضر ہے


پشتون بھی کمال کی مارشل ریس ہیں۔ جنگ عظیم ہو تو تاج برطانیہ کو یہی دکھائی دیتے ہیں جو لڑ سکتے ہیں۔ تاج برطانیہ کی خاطر بلاوجہ مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ جہازوں کے جہاز بھر کر پشتون سات سمندر پار بھیجے جاتے ہیں اور یہ جہاز تابوت اور بہادری کے تمغے لے کر پلٹتے ہیں۔

کشمیر کا مسئلہ ہوتا ہے تو باقاعدہ فوج کے انگریز کماندار لڑنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بس بہادر پشتون قبائلی ہی لڑ سکتے ہیں۔ مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ ان کے لشکر جا جا کر لڑتے ہیں۔ جو سامنے آتا ہے اسے بہادری سے مار ڈالتے ہیں اور خوب مال غنیمت کماتے ہیں۔

کمیونسٹوں کو خیال آتا ہے کہ سرمایہ دار غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں تو پھر مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ پشتون ہی ان کے لئے بندوق اٹھاتے ہیں۔ امریکیوں کے کہنے پر سعودی توجہ دلائیں تو باقی ماندہ پشتونوں کو خیال آتا ہے کہ روسی تو ملحد اور خدا دشمن ہیں، اگر لڑنا ہی ہے تو خدا پرست امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑنا چاہیے، ثواب کے علاوہ ڈالر بھی ملتے ہیں۔ مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ یوں غریبوں کے لئے لڑنے والے پشتون اور خدا کے لئے لڑنے والے پشتون ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگتے ہیں۔

روسی شکست کھا کر چلے جاتے ہیں تو عرب مجاہدین توجہ دلاتے ہیں کہ اصل دشمن تو امریکی ہیں۔ جو پشتون یہ ہدایت پانے سے انکار کر دیتے ہیں وہ مار دیے جاتے ہیں۔ امریکہ پر نائن الیون کا حملہ ہو جاتا ہے۔ امریکہ بدلے میں پشتونوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ پشتون ایک بار پھر مرنے کو حاضر ہیں۔ کچھ امریکہ سے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور کچھ امریکہ کے لئے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔

پھر بعض قبائلیوں کو خیال آتا ہے کہ جو امریکہ کا یار ہے وہ غدار ہے۔ وہ مرنے کو پھر حاضر ہو جاتے ہیں اور پاکستانی ریاست سے ہی لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ افغانستان نہیں ہے جہاں لڑنا آسان ہو۔ جس علاقے میں لڑائی ہو رہی ہے وہ پشتونوں کا اپنا گھر ہے۔ یوں ہزاروں پشتون مر جاتے ہیں اور لاکھوں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

مرنے کے شائق بعض پشتون ملک بھر میں خودکش دھماکے کرتے ہیں کہ ہم تو مرنے کا لطف لیتے ہی ہیں، باقیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں۔ جو پشتون مرنے سے بچنے کے لئے اپنے گھر چھوڑ کر پناہ لینے کو مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں، وہ پھر زد میں آ جاتے ہیں۔ ایک طرف ان کو طالبان مارتے ہیں اور دوسری جانب ریاست ان کو دہشت گرد سمجھنے لگتی ہے۔

اب تو سنا ہے کہ یہ حکم بھی نکلا ہے کہ خودکش بمبار غریب پشتون محنت کشوں کے روپ میں پھر رہے ہیں ان پر خاص نظر رکھی جائے۔ حکم دینے والے بھی مجبور ہیں کہ انہوں نے دہشت گردوں کو روکنا ہے جو یہی حلیہ بنا کر گھوم رہے ہیں اور یہ غریب پشتون بھی مجبور ہیں کہ انہوں نے روزی روٹی کمانی ہے۔

جس شدت سے روزانہ دہشت گردی کی رپورٹیں آ رہی ہیں اور ساتھ ہی خودکش حملہ آوروں کے نام اور تصویر دیے جاتے ہیں، تو اس کے بعد کہیں پنجاب اور سندھ کے عوام بھی ہر پشتون کو پکا دہشت گرد نہ سمجھنے لگیں۔ کہیں خوفزدہ لوگ ویسی ہی وحشت نہ دکھانے لگیں جیسے کہ ہماری تاریخ میں وہ بارہا دکھاتے رہے ہیں۔ نفرتوں کا سودا زیادہ بکنے لگا تو پھر کیا ہو گا؟ یاد رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پشتون آبادی والا شہر پشاور یا کابل نہیں بلکہ کراچی ہے۔ بے شمار پشتون پنجاب کے شہروں میں روزی کماتے دکھائی دیتے ہیں۔ پشتونوں کو اگر ان علاقوں میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی راسخ علامت بنا دیا گیا تو انجام کیا ہو گا؟ تصور کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو مہاجر کیمپوں میں رہنے والے مجبور پشتونوں کو دیکھ لیں۔

لیکن بدقسمتی سے مرنے کو ایک مرتبہ پھر پشتون حاضر ہے۔ وہ خود ہی مرنے سے انکار کرے گا تو بچے گا۔ وہ دوسروں کے کہنے پر جان دینا اور جان لینا چھوڑے گا اور امن اور تعلیم کی طرف جائے گا تو پھر ہی اس کی حالت بدلے گی۔ پشتون کو ملا کو چھوڑ کر باچا خان کی عدم تشدد اور تعلیم کی فکر پر چلنا ہو گا۔

ورنہ مرنے کو پشتون حاضر ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments