مشکوک پٹھان اور اسلاموفوبیا کا سیاپا


آئیے چشم تصور پر ایک منظر لاتے ہیں۔  فرانس میں نسل پرست جماعت کی صدر نشین میری لی پین کی حکومت آ جاتی ہے۔ یا ہالینڈ میں نسل پرست گیرٹ وائلڈر وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔ اس دوران ان دونوں ملکوں میں کسی ایک میں دہشت گردی کی واردات رونما ہوتی ہے جس مین بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور املاک کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک سرکاری اعلامیہ جاری ہوتا ہے جس کا متن کچھ یوں ہوتا ہے۔

 ”حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر عوام سے التماس ہے کہ چند مشکوک اشخاص جو حلیے سے عرب، افریقی یا ایشیائی مسلمان لگتے ہیں، جن کو مختلف علاقوں میں دونیر کباب، شاورما، قالین، کھلونے وغیرہ پھیری لگا کر بیچتے ہوے دیکھا گیا ہے، اپنے ناپاک عزائم سے ملک کے کسی بھی علاقے میں دہشت گردانہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ لہزا کسی بھی ایسے شخص کو جو حلیے سے عرب، افریقی یا ایشیائی مسلمان لگتا ہو، اور دونیر کباب، شاورما، قالین، کھلونے وغیرہ پھیری لگا کر بیچتے ہوے دکھائی دے، یا مشکوک لگتا ہو، تو فوری طور پر قریبی تھانے یا 911 پولیس کنٹرول پر اطلاع دیں۔  آپ کا تعاون تحفظ کی ضمانت۔ ترجمان پولیس، ایمسٹرڈیم/ پیرس/ ورسائی“

ایسے کسی اعلامیہ کے جاری ہونے کے فورا بعد، ”اسلاموفوبیا، نسل پرستی، مغرب کے خبث باطن، “ وغیرہ کی جو ہا ہا کار ہمارے ہاں مچے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔  مدد کو آئیں گے تو مغرب کے وہی مقہور اور مطعون ”لبرل“ حلقے جن سے کسی بھی قسم کی ذہنی ہم آہنگی کو ہمارے ہاں گردن زدنی جرم سمجھا جاتا ہے۔

اس تصور کا محرک ایک اشتہار بنا جو مبینہ طور پر پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤ الدین کی پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔  فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے تصوراتی اشتہار میں جہاں جہاں ” عرب، افریقی یا ایشیائی مسلمان“ درج ہے، وہاں وہاں ” افغان یا پٹھان“ لکھا گیا ہے۔  وطن سے دوری کے سبب اس خادم کو یہ موقع میسر نہیں ہے کہ منڈی بہاوالدین کی پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر جاری کردہ اس اشتہار کی ثقاہت کا تعین کر سکے، مگر سوشل اور با ضابطہ میڈیا پر ”افغان“ نسل کے خلاف جاری کردار کشی کی مہم کو ذہن میں رکھا جائے تو اس اشتہار کا اصلی ہونا بعید از قیاس نہیں۔  کم از کم لا شعوری سطح پر یہ خیال اہل وطن کی معتد بہ تعداد کے ذہنوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ ”افغان/ پٹھان“ اور دہشت گردی لازم و ملزوم ہیں۔ (پولیس ذرائع اس بات کی تردید کر چکے ہیں کہ ایسا کوئی اشتہار ان کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ لیکن اس مضمون میں اٹھائے گئے نکات کی بنیاد پر یہ پڑھنے کے قابل ہے: مدیر)

اس بحث سے قطع نظر کہ لعل شہباز قلندر کی درگاہ، سول ہسپتال کوئٹہ، شکار پور کی امام بارگاہ وغیرہ پر خود کش حملوں کے مبینہ ملزمان کی نسلی شناخت کیا تھی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تالیف کردہ فہرستوں میں بیان کردہ شدت پسندی کے مراکز کہاں کہاں واقع ہیں، اپنے ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو عوام کی نظر میں، محض ان کی نسلی شناخت کی بنیاد پر مشکوک ٹھہرانا بہت بڑا فتنہ ہے۔  اگر اس تباہ کن رجحان پر سرکاری اور سماجی سطح پر روک نہ لگائی گئی تو اس کے جو اثرات مقامی سماجی تانے بانے پر مرتب ہوں گے، وہ اپنی جگہ، ہم بہ حیثیت مسلمان اور پاکستانی دنیا میں کہیں بھی، خصوصا کشمیر، فلسطین، شام اور چیچنیا میں ہونے والی نسلی، مذہبی یا کسی بھی بنیاد پر ہونے والی نا انصافی پر احتجاج کا حق کھو ہی بیٹھیں گے، مغربی ممالک میں ”اسلامو فوبیا“ کے سیاپے سے بھی ہوا نکل جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments