ایماندار افسر


میں ایک ایماندار افسر ہوں۔ سکہ بند ایماندار۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے مگر غول در غول بد عنوان اور بد دیانت لوگوں کے درمیان اکیلا ایماندار۔ سچ پوچھیں تو یہ دعویٰ اس لیے کہ مجھے اپنے معیار کا ایماندار شخص آج تک نہیں ملا۔ اگر چہ یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے مگر پرہیزگاری کی بھی پوری کوشش کرتا ہوں۔ صبح دفتر پہنچ کر روزانہ گھنٹہ بھر کے لیے مختلف وظائف پڑھتا ہوں۔ کچھ وظائف ہفتہ وار ہیں اور کچھ روزانہ کی بنیاد پر ۔ اچھی پوسٹنگ کے حصول اور معطلی سے بچنے کے وظائف البتہ روزانہ کی بنیاد پر پڑھتا ہوں۔

ایمانداری کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایماندار افسر کا اپنا ایک رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ کوئی درخواست گزار یا ماتحت ایسے منہ اٹھا کر آپ کے دفتر داخل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دن بڑے سکون سے گزر جاتا ہے۔ کئی دفعہ دفتر کی کھڑکی سے حرام خور قسم کے ملاقاتی باہر مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔ مگر مجھ ایسے ایماندار افسر کے سامنے آنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کچھ بد عنوان قسم کے افسروں پر جنہوں نے اوپن ڈور پالیسی اور نئے Initiativesکے نام پر سرکاری دفتروں کی مٹی پلید کی ہوتی ہے اور دفتر کا نظم و ضبط برباد کیا ہوتا ہے۔ ان کے دفاتر سرکاری دفتر کم اور مچھلی منڈی زیادہ لگتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں صرف ایماندار رہنا کافی نہیں۔ ایمانداری کا پرچار کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس لیے میں دوپہر دو بجے دفتر میں عوام الناس کی غیر ضروری انٹری بند کر کے صرف ایمانداری کی بات کرتا ہوں۔ کبھی کوئی جونئیر افسر اپنے پاس بلا کر اور کبھی کسی سینیئر افسر کے پاس بیٹھ کر ۔ ایمانداری قربانی کا جذبہ مانگتی ہے۔ اس لیے مجھے کوئی کہے تونسہ شریف میں چند لوگ بیٹھے ہیں اور وہ ایمانداری پر گھنٹہ بھر لیکچر سن سکتے ہیں تو میری پوری کوشش ہوتی ہے سب کام چھوڑ کر وہاں روانہ ہو جاؤں۔

پرویز مشرف نے کہا تھا سب سے پہلے پاکستان۔ میں کہتا ہوں سب سے پہلے ایمانداری۔ اس کی وجہ میرا ایک تلخ تجربہ۔ ایک دفعہ ایک ضلع میں تعینات ہوا۔ میں نے محسوس کیا وہاں ہر طرف بد عنوان لوگوں کا پھیلایا ہوا گند ہی گند ہے۔ میں نے وہاں کا سارا گند صاف کیا۔ پھر حکومت نے مجھے اگلے ضلع میں تعینات کر دیا۔ وہاں کا گند بھی صاف کیا۔ اسی طرح اپنے کریئر میں حرام خوروں کے پھیلائے ہوئے کافی گند صاف کر چکا ہوں۔

جہاں ایمانداری کے بہت سے فوائد ہیں وہاں بد عنوانی میں گوڈوں گوڈوں غرق ہمارے جیسے معاشرے میں اس کے نقصانات بھی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ کہ حرام خور قسم کے ماتحت اور بد عنوان قسم کے لوگ آپ کے بارے میں طرح طرح کے شوشے چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کچھ حرام خور قسم کے حاسدوں نے میرے بارے میں مشہور کیا ہوا کہ میں بہت سخت اور سڑیل افسر ہوں۔ پورے دفتر میں شوشہ چھوڑا ہوا کہ فائل پر دستخط کر نے میں بہت کنجوس ہوں۔ کہتے کہ میں فائل کا ایک ایک لفظ صرف پڑھتا نہیں بلکہ گنتا ہوں۔

پھر فائل سے پوچھتا ہوں کہ اگر اجازت ہو تو دستخط کر لوں؟ بے زبان فائل کی خاموشی کو اقرار سمجھ کر دستخط کر دیتا ہوں۔ لاحول۔ کیا بے ہودہ پراپیگنڈہ ہے میرے بارے میں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کبھی بھی ایک مہینے سے اوپر کوئی فائل اپنی میز پر نہیں رہنے دیتا۔ مہینے میں نہ کر سکوں تو اعتراض لگا کر واپس بھیج دیتا ہوں۔ پینڈنگ بالکل نہیں رکھتا۔

دوسری یہ بات میرے بارے میں مشہور کی گئی ہے کہ میں انکوائری کرنے میں بہت سخت ہوں۔ کسی بے گناہ کی انکوائری میرے پاس لگ جائے تو اس کو بھی نہیں چھوڑتا۔ حتیٰ کہ انہوں نے میرے بارے میں مشہور کیا ہوا کہ اگر میری اپنی انکوائری میرے پاس لگ جائے تو وہ بھی میں اپنے خلاف ہی لکھوں گا۔ استغفر اللہ۔ کیا فضول الزام ہے۔ حقیقت یہ کہ بد عنوان قسم کے لوگ مجھ سے گھبراتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں اگر کوئی ماتحت کسی انکوائری میں بے گناہ بھی ہو تب بھی اس کے خلاف لکھنا چاہیے۔ کیونکہ امکان ہے کہ وہ پچھلی انکوائری میں گنہگار ہو کر بھی سزا سے بچ گیا ہو۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا کہ کسی کو معافی نہیں دینی چاہیے۔ دوسرا اگر آپ کسی کو بے گناہ سمجھ کر معاف کر دیں گے تو خطرہ ضرور رہتا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ پیسے لے کر بے گناہ کر دیا ہے۔ لہٰذا احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس کے علاوہ میرے بارے میں یہ بھی شوشہ چھوڑا ہوا کہ میں کسی سے مسکرا کر بات نہیں کرتا اور کسی کو چھٹی نہیں دیتا۔ بھائی کس چیز کی مسکراہٹ؟ میں نے کسی سے گلی ڈنڈا کھیلنا ہے؟ گلی ڈنڈا میں بچپن میں بہت کھیل چکا۔

جہاں تک چھٹی کا تعلق ہے تو ہر اتوار چھٹی ہی تو ہوتی ہے۔ چھٹی سے یاد آیا، اگلے دن ایک کلرک منہ بسورتا ہوا میرے دفتر آیا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تمھیں۔ شکل تو ایسی بنائی ہوئی جیسے تمہاری بھینس گم ہو گئی ہو۔ کہتا اماں بیمار ہے شارٹ لیو چاہیے۔ میں نے کہا حرام خور بہانے مت بناؤ کام کرو، کام۔ تم ڈاکٹر تھوڑی ہو جس کا پہنچنا ضروری ہے۔ دم دبا کر بھاگ کیا۔ تھوڑی دیر بعد آ کر کہتا ہے صاحب اماں مر گئی ہے۔ میں نے کہا بھائی میں نے تو نہیں ماری، جاؤ جا کر جنازہ پڑھو۔ حد ہو گئی ہے۔

یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے والے ملازم نہ صرف بد عنوان ہوتے ہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے نا اہل بھی ہوتے ہیں۔ اگلے دن میں نے اپنے ٹیلیفون آپریٹر کو بلا کر کہا کہ ملتان ملاؤ۔ نالائق ایسے آنکھیں پھاڑ کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جیسے میں نے یونان ملانے کو کہہ دیا ہو۔ پھر گنواروں کے انداز میں پوچھتا ہے کہ ملتان کہاں ملاؤں؟ دراصل بدعنوانی کی وجہ سے ان کے دماغوں پر بھی قفل پڑ چکے ہیں۔

اسی طرح ایک دن میں نے گھنٹی دے کر اپنے نائب قاصد کو بلایا۔ وہ اندر آیا تو میں اتفاق سے لیپ ٹاپ پر مصروف ہو گیا۔ دو تین منٹ بعد اوپر دیکھا تو لسی مانگنے والی شکل بنا کر گھگھو گھوڑے کی طرح کھڑا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ کیوں کھڑے ہو؟ کہتا ہے سر آپ کو کوئی مسئلہ تھا، آپ نے بلایا تھا۔ ایک تو یہ نہیں پتہ کہ میں نے کیوں بلایا تھا الٹا مسئلہ بھی میرا بنا دیا۔ ایک اچھے بھلے ایماندار افسر کا ڈرامہ بنا کر رکھ دیا۔ پھر میں نے بھی ایسے نا لائق اور بد عنوان ماتحتوں کو ایسی جگہ ٹرانسفر کیا جہاں انہیں پینے کا پانی بھی نہ ملے۔ اب پتہ چلے گا کہ کسی ایماندار افسر سے واسطہ پڑا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments