دین کی ضرورت، مگر کیوں


انسان کا اس کائنات میں وجود پانا آنا فانا اور جلد بازی کا اظہار ہے نہ کہ الل ٹپ اسے دنیا میں اتارا گیا ہے۔ ابتدا انسان کے وقت تو فرشتوں نے اس کا اظہار کیا تھا کہ انسان زمین میں فسادات کا ذمہ دار ہے۔ لیکن بنانے والے نے انسان کو ایسی صلاحیت عطا فرمائی جو کہ فرشتوں میں ناپید تھی اور خود خالق ان فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہوئے کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے (البقرہ: 30 ) ، اور انسان اول کو ایسا علم عطا کیا گیا جن سے ابھی فرشتے بھی ناواقف تھے۔

اس انسان اول کو زمین میں آباد کر دیا گیا اور عطا کردہ علم کے مطابق زمین میں رہنے کی اور اپنے بقائے حیات کے لئے نت نئے طور طریقوں کو استعمال میں لانے کی اجازت بھی دی گئی۔ انسان اول نے کائنات کے متعلق سارے علوم اسما کی شکل میں حاصل کر لیے تھے۔ چنانچہ انھی علوم پر انحصار کرتے ہوئے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کھیتی باڑی بھی کیے، زمین میں ہل بھی چلائے اور ازدواجی زندگی سے نسل انسانی کو فروغ بھی دیا۔

نسل انسانی فروغ پاتی گئی، انسان کی بنیادی ضروریات حاجات (از بس ضروری) ہوتی گئیں اور ان کو تحسینات کی شکل دینے کے لئے باگ ڈور بھی تیز ہوتی گئیں۔ اس طرح سے ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے انسان اپنے ہی انسانوں سے سر پھٹولنے لگے۔ یعنی ایک چھوٹی سی ضرورت کو اگر ضرورت رہنے دیتے اور اسے حاجت کی شکل میں نہ بدلتے اور مزید تحسین اور خوبصورتی کے لیے خیال میں نہ لاتے تو زندگی سکون اور امن سے گزرتی مگر ایسا انسان کے لیے ممکن نہ ہو سکا۔

اس کو مزید آسانی سے یوں سمجھ سکتے ہیں انسان کو ایک بنیادی ٹھکانہ کی ضرورت شروع سے رہی ہے، چاہے غار کی صورت میں ہو یا مٹی کے بنے گھر ہوں یا سنگ و حجر تراش کے مسکن کی تعمیر ہو یا کہ مختلف مسالوں اور کیمیکلز سے بنے ہوئے گھر ہوں۔ ان تمام طریقوں سے تعمیر کیے گئے گھروں کا مقصد بنیادی طور پر ایک محفوظ ٹھکانہ کا بندوبست کرنا ہے جن میں رہائش پا کر انسان گرمی، سردی، بارش و آندھی سے حفاظت پا سکے۔ لیکن گھر میں کمروں کی تعداد انسان کی حاجت پر منحصر ہے، جتنی حاجت ہو گی اسی حساب سے کمروں کی تعداد۔ لیکن گھر میں باغ بھی ہو، گرمیوں میں ڈیجیٹل اے سی اور سریوں میں جدید ترین ہیٹرز کا بندوبست ہو، دیواروں کی چمک دمک سے آنکھیں چندیا جائیں یہ سب تحسینات میں شامل ہیں۔ جو طول عمل کی حیثیت رکھتی ہیں اور کبھی انتہا کو نہیں پہنچتی ہیں۔

کیا انسان ساری ضروریات، حاجات اور تحسینات کو پورا کرے، کیا اس فانی دنیا میں یہ سب ممکن الوصول ہے؟ اس لامحدود کائنات میں انسان کی محدود زندگی اور محدود صلاحیتیں ان سب کے پانے کے لئے کافی ہیں، غور و فکر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے کہ کیا انسان کا مقصد اولی اس حیات کو پانے کا صرف یہی ہے کہ وہ حاجتوں کا گرویدہ بنا پھرے اور بعد کو ان کی رنگینیوں اور خوبصورتیوں میں اپنے آپ کو مگن رکھے، یعنی کہ انسان کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا ایک ذیلی سوال یہ بنتا ہے کہ کون ہے جو اس کا تعین واضح انداز سے کرے خود انسان، یعنی اس کا عقل، وجدان یا خیال یا کہ انسان کا خالق، اس کو عقل جیسی نعمت عطا کرنے والا، اس سے بڑھ کر خود مخلوقات کی فہرست میں اسے انسان بنانے والا۔ انسان محض خود سے راہ ہدایت نہیں پا سکتا جب تک کہ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ہی اسے فی الفور ہدایات، محرمات اور ممنوعات بتا دی جائیں بلکہ سمجھا بھی دی جائیں کہ اسے کیا کرنا ہے، کیا کھانا ہے، کیا نہیں کھانا ہے یعنی کہ اس کے حدود و قیود کیا ہیں؟ انسان اول، آدم علیہ السلام کو آگاہی اس کے خالق نے عطا فرمائی اور اسے ہدایات سے سرفراز کیا۔ لیکن شجر ممنوعہ کے چکھتے ہی انسان اول (آدم) اور انسان دوم (اماں حوا) اپنی اصل منزل سے زمینی اور عارضی مستقر پر اتار دیے گئے۔ اس لیے انسان اول اپنی اصل کے اعتبار سے جنت اور امن والی جگہ کا بندہ تھا۔ جب اس ارضی دنیا میں اسے اتارا گیا تو اس کے لیے یہاں بھی رہنمائی درکار تھی کیونکہ وہ ایک نئی جگہ آباد ہوا تھا۔

اس کے لیے اللہ نے وحی کو ذریعہ بنایا جو کہ اٹل اور قطعی ذریعہ ہے۔ اس وحی کو فرشتے کے ذریعہ سے انسان اول تک پہچانے کا اعلی ترین طریقہ اختیار کیا گیا۔ یوں موجودہ زمین پر انسان کے لئے اپنے نظام کو چلانے اور صحیح راستے کی پہچان کے لیے حقیقی رہنمائی ازل سے میسر رہی۔ چنانچہ اللہ نے انسانوں میں سے چند پاک طینت و فطرت لوگوں کو اپنے فضل عظیم سے منتخب کیا کہ یہ حضرات اس کے پیغام کو دیگر انسانوں تک پہنچائیں، جو کہ انبیا کرام کہلائے۔ ان انبیا کرام کی رہنمائی وحی سے ہوتی رہی اور انہیں متفرق صحائف بھی وقتاً فوقتاً دیے جاتے رہے تھے بلکہ ایک وقت اور ایک زمانہ میں کئی انبیا کو بھی منصب نبوت عطا فرمایا تاکہ بنی نوع انسان کی ہدایت کا کامل اہتمام کیا جا سکے۔

اس سلسلے کی آخری کڑی رسول اللہ ﷺتھے، جن کے قلب اطہر پر قرآن حکیم نازل ہوا۔ یہ ہدایات کا سلسلہ جو وحی کے ذریعے سے ہوا اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان ہدایات سے جو تہذیب و ثقافت وجود میں آتی ہے، وہ اپنا راستہ دنیا اور آخرت دونوں میں درست رکھ سکتا ہے، جو کہ اب کلی پیراڈائم کی صورت گری میں موجود ہے اور دین اسلام کے نام سے موسوم ہے۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مکمل اور پسند فرمایا بلکہ ہم پر اپنی عظیم نعمت، نعمت دین کی تکمیل فرمائی ( المائدہ: 3 ) ۔ اس مجموعی نظام ہدایت کی ہمیں ضرورت تھی اور رہے گی تو یہی ضرورت دین اسلام کی شکل میں ہمارے مابین ہے، جس کی تعلیمات کو قرآن مجید میں سمویا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments