نواز اور عمران ایک دوسرے کی ضد


نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم ہوں یا نہ ہوں وہ نماز، روزہ، ذکر و اذکار اور محفل میلاد کے پابند ہیں۔ آج بھی نواز شریف کی لاہور کی رہائشگاہ جاتی امراء اور لندن میں ہر جمعرات شریف فیملی کے افراد اکٹھے ہو کر ذکر و اذکار کی محفل منعقد کرتے ہیں۔ جبکہ عمران خان کی وزیراعظم بننے سے قبل کبھی عوام نے ان کو نماز پڑھتے کی بھی تصویر نہیں دیکھی۔ وزیراعظم بننے کے بعد عوام نے عمران خان کے ہاتھ میں تسبیح اور انگوٹھی لازمی دیکھی، ہر عید پر عوام عمران خان کے نماز عید ادا کرنے کی تصویر دیکھنے کو ترس گئے ہیں لیکن عمران خان نے یہ مناسب نہیں سمجھا شاید موکلات نے کبھی اس کی اجازت نہ دی ہو۔

جبکہ وزیر اعظم ہاؤس سے بھی کبھی گزشتہ چار سالوں میں یہ خبر تک جاری نہیں ہوئی کہ وزیراعظم نے عید کی نماز کہاں ادا کی ہے۔ اگر نواز شریف اور عمران خان کے بطور وزیر اعظم حکومتی اقدامات کا جائزہ لیں تو نواز شریف نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا ہم ملک سے دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کریں گے۔ پھر سب نے دیکھا کہ آپریشن ضرب عضب، آپریشن رد الفساد اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں دہشتگردوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن ہوا جس کی بدولت کوئٹہ، پشاور، کراچی سمیت شمالی اور جنوبی وزیرستان جیسے نو گر ایریا کو ختم کر دیا۔

ملک بھر میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا۔ نواز شریف کی حکومت آئی تو ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے میں بم دھماکے معمول کی بات تھے۔ ان دنوں ایسے لگتا تھا کہ جیسے عنقریب ملک پاکستان پر القاعدہ یا داعش کے انڈر کنٹرول ہونے ہونے جا رہا ہے۔ دو بم دھماکوں میں تو میں خود خوش قسمتی سے بچا تھا۔ پہلا دھماکہ پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیکل سٹورز اور فارماسسٹ کے احتجاجی مظاہرے کے دوران ہوا جس میں سی ٹی او لاہور کیپٹن مبین اور ڈی آئی جی پولیس ظفر گوندل شہید ہوئے تھے۔

اس دھماکے سے چند منٹ قبل میں کیپٹن مبین کے پاس کھڑا تھا میں نے ان کو بتایا کہ حکومت اور مظاہرین کے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اب مظاہرہ ختم ہونے لگا ہے میں جیسے ہی واپڈا ہاؤس کی بلڈنگ کے پاس پہنچا تو دھماکہ ہو گیا۔ دوسرا دھماکہ لاہور پولیس لائن کے گیٹ پر ہوا جس میں ایک بار پھر میں خوش قسمتی سے بچ گیا۔ پھر سب نے دیکھا ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو گیا۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ہنگامی بنیادوں پر توانائی کے نئے پروجیکٹ لگائے۔

ان میں حویلی بہادر شاہ، بھکھی پاور پلانٹ، قائد سولر پاور پلانٹ، ساہیوال کول پاور پلانٹ اور نیلم جہلم ہائیڈو پروجیکٹ نمایاں ہیں۔ دیہی علاقوں میں اٹھارہ گھنٹے اور شہری علاقوں میں چودہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی لیکن نواز شریف حکومت نے چند سالوں میں ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کردی، اس کا سب سے بڑا کریڈٹ نواز شریف کے کمانڈو بیوروکریٹ فواد حسن فواد اور شہباز شریف کے کمانڈر بیوروکریٹ احد چیمہ کو جاتا ہے لیکن بدقسمتی دیکھیں دونوں ہیروز کو اعزازات سے نوازنے کی بجائے دو، دو سال جیل میں رکھا گیا۔

آج ملک میں ایک بار پھر دہشتگردی بھی لوٹ آئی ہے لوڈشیڈنگ بھی غیر علانیہ ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں لاہور میں پان منڈی اور پشاور میں مسجد کے اندر نماز جمعہ کے دوران خوفناک دھماکے ہوئے۔ جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ آج لوڈشیڈنگ اگر ہو رہی ہے تو عمران حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ہو رہی ہے اس کے ذمہ دار عمران خان کے ساتھ عمر ایوب اور حماد اظہر بھی ہیں۔ جنہوں نے اپنے محکموں پر کم اور حزب اختلاف پر کیچڑ اچھالنے پر زیادہ توجہ دی۔

آج 27 پاور پلانٹس بند ہیں جبکہ تربیلا ڈیم کے 19 میں سے 11 یونٹ صرف مینٹیننس نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں جن کی گزشتہ چار سال سے کبھی صفائی نہیں کی گئی۔ نواز شریف نے صرف چار سال حکومت کی اور سی پیک کے تحت ملک بھر میں نئی موٹرویز بنا دی۔ پھر عمران خان کے چہیتے وزیر مراد سعید نے آتے احسن اقبال پر موٹرویز میں کمیشن کے الزامات لگا دیے اور چین جیسے دوست ملک کو ناراض کر دیا۔ نواز شریف نے کسانوں کو 119 کروڑ تک کا کسان پیکج دیا، جبکہ عمران خان نے کسانوں کو صرف کسان کارڈ دیے جو بعد میں اس کسان کارڈ کے تحت ملنے والی کھاد سے نکلنے والے خالی کوپن پر احتجاج کرتے نظر آئے، نواز شریف کے دور میں عام صارف کے لئے بجلی کا ایک یونٹ تین سے چار روپے میں اور کسان کے لئے آٹھ روپے کا تھا جبکہ عمران خان کے دور میں عام صارف کے لئے ایک یونٹ پانچ روپے سے چودہ روپے تک پہنچ گیا اور کسان کے لئے انیس روپے کا یونٹ کر دیا گیا۔

نواز شریف دور میں کھاد کی بوری 4500 سے 47 سو روپے کی تھی آج وہی کھاد کی بوری 7500 تک پہنچ گئی۔ کھاد مہنگی ہونے کے باوجود کسان کو نہیں مل سکی۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز نے پنجاب میں سو ارب میں تین میٹرو بسیں بنا دی جبکہ عمران خان نے 126 ارب میں پشاور میں چار سال بعد ایک میٹرو بس بنائی جو چلی کم اور جلی زیادہ، شہباز شریف نے لاہور کے 19 روٹس پر جدید بسیں چلائی جو عثمان بزدار کے دور میں سب نے دیکھا حماد اظہر کی فیکٹری کو سکریپ کے بھاؤ فروخت کردی گئی آج لاہور میں زیادہ تر روٹس پر پرانے مزدے چل رہے ہیں۔

نواز شریف نے چار سالہ دور حکومت میں تقریریں کم اور ڈلیور زیادہ کیا جبکہ عمران خان نے چار سالوں میں ڈلیور کم اور تقریریں زیادہ کیں۔ اگر عمران خان بڑے جلسوں کا دعوی کرتے ہیں تو ان کو سیاست میں بائیس سال ہو گئے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مریم نواز کو سیاسی میدان میں آئے صرف چار سال ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے آزاد کشمیر شاردہ میں اور کوئٹہ میں تاریخی جلسے کر کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ عمران خان اب دوبارہ 1994 والے عمران خان بن چکے ہیں۔

کبھی پاکستانیوں سے چندہ اور کبھی اوورسیز پاکستانیوں چندہ مانگ رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے کالعدم جماعت ڈکلیئر ہونے کا قوی امکان ہے اس لیے عمران خان نے اندرون خانہ پارٹی رہنماؤں کو جماعت کا نیا نام سوچنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ مطلب عمران خان کو یقین ہو گیا ہے کہ اب تحریک انصاف کا وجود ختم ہونے والا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں عمران خان کے لئے مزید مشکلات پیدا ہونے والی ہیں ان کو جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے چاہے ہار چوری کا کیس ہو یا راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل ہو۔

مجھے عمران خان کا مستقبل اب ہمیشہ کے لئے سڑکوں پر ہی نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ اب کہہ چکے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں ٹکٹ صرف پارٹی کے وفاداروں کو دیے جائیں گے اور اتحادیوں کے بغیر حکومت بناؤں گا۔ یہی غلطی عمران خان نے 2013 میں درزیوں، مستریوں اور ریڑھی والوں کو ٹکٹ دے کرکی تھی پھر سب نے دیکھا ان کو صرف تیس سیٹیں ملی۔ اگر آئندہ الیکشن میں عمران خان نے سچ میں ایسا کیا تو پھر ان کو نہ تیس سیٹیں ملیں گی اور نہ ہی وہ اب کی بار پانچ حلقوں میں کامیاب ہو سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments