فلٹر ببل اور ایکو چیمبر کے انقلابی اور تبدیلی کا خواب


کچھ سال پہلے عرب سپرنگ کی تحریک میں مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں آمریت و بدعنوانی کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں مختلف ممالک میں نوجوانوں کے مظاہرے ان ممالک کے گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس کیے گئے تھے۔ یہ مظاہرے بغیر کسی لیڈر شپ اور سیاسی تنظیم کے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے منعقد کیے گئے تھے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں تھی۔ عرب سپرنگ کا اختتام شام میں بشار الاسد کے خلاف ایک تحریک پر ہوا جس نے وہاں کے عام لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کے ساتھ دہشت گردی کو بھی ایک نئی جہت دی۔

امریکہ میں سابق صدر ٹرمپ کے دوسری بار انتخابات میں شکست پر ہجوم کی واشنگٹن کے کیپٹل ہلز پر چڑھائی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کیپٹل ہلز میں ہجوم بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اکٹھا ہوا تھا جو صدر ٹرمپ کی حمایت میں سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنے کو تیار نہیں تھا۔ امریکہ کے لوگ اس دن کو ایک ڈراؤنے خواب سے تعبیر کرتے ہیں۔

پروپیگنڈا اور افوہ سازی کا رواج قدیم ہے جس میں ابلاغ کی ترقی اور فروغ کے ساتھ جدت اور تیزی آئی ہے۔ اکیسویں صدی میں ابلاغ کا ایک نیا دور شروع ہوا تو سماجی رویوں میں سطحیت اور جذباتیت بھی دیکھی گئی۔ بغیر تحقیق کے کسی بھی پھیلائی گئی بات یا پہنچی ہوئی خبر پر جذباتی رد عمل ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔

ابلاغی ادارے لوگوں کی نفسیات کے مطابق ان تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کی پسند شوق اور نقطہ نظر کے عین مطابق ان تک معلومات کی ترسیل کرتے ہیں۔ خبروں اور معلومات کی ترسیل کا یہ سلسلہ ایک خودکار نظام کے تحت ہوتا ہے جو انتہائی منافع بخش کاروبار بھی بن چکا ہے۔ اس نظام کے تحت کسی خاص پسند، شوق، نظریہ کے حامل لوگوں کی ایک برادری یا گروپ بنایا جاتا ہے اور ان کی ضرورت کے مطابق معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ معلومات حاصل کرنے کے اس طریقہ کار کو ”ایکو چیمبر“ کہا جاتا ہے۔ رشتے داروں، دوستوں اور ہمکاروں کے چھوٹے گروپ سے لے کر بین الاقوامی امور پر لاتعداد افراد تک اس طریقہ کار سے معلومات بہ آسانی پہنچائی جاتی ہیں۔

پیداوار کی مارکیٹنگ کے ساتھ اب سیاسی و سماجی نظریات کے بارے میں بھی معلومات موصول ہوتی ہیں اور ہم خیال گروپ مل جاتے ہیں۔ ٹویٹر، فیس بک اور وٹس ایپ پر ایسے نظریاتی گروپ نظریات اور عقائد کی مطابقت کے حساب سے موجود رہتے ہیں جو ایک مخصوص ماحول پیدا کر کے اس کے اندر اپنی اپنی متبادل سچائی کی استقامت اور حقانیت کے دائرے کے اندر رہتے ہیں۔ ایسے مختلف الخیال گروہ اپنے پسند کی اطلاعات کی بہتات اور ان کی سچائی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ منقسم ہوجاتا ہے جس کو سائبر وار کہا جاتا ہے

یہ دراصل ایسی اطلاعات کی جنگ ہے جس کی بنیاد پر لوگ تقسیم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ کسی پوسٹ پر ملنے والی ایک منٹ میں لاکھوں لوگوں کی پسندیدگی دراصل میکانکی نظام کے تحت ہوتی ہے جس میں ایک طرح کا نشان یا کچھ ایک جیسے لفظ ہوتے ہیں جو بسا اوقات پسند کی گئی بات سے مطابقت بھی نہیں رکھتے۔ اب لوگ لاکھوں جعلی ناموں اور خودکار مشینوں سے کسی بھی پوسٹ کو ٹاپ ٹرینڈ بنا لیتے ہیں اور ایسی اطلاعات اور معلومات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے والے کو تعداد کی بنیاد پر منافع بھی مل جاتا ہے جو اس کاروبار کو صنعت کا درجہ دیتا ہے۔ افواہ سازی کی صنعت کا استعارہ اب حقیقت بن چکا ہے۔

معلومات اور اطلاعات کی ترسیل کا عمل افراد کی اپنی ضرورت کی نفسیات کے گرد گھومتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ پاکستان میں اس وقت حکومت کی مخالف خبر کو تلاش کریں تو اگلے کئی دنوں تک ایسی ہی خبریں ملتی رہیں گی اور اگر اس کے حق میں خبر کو تلاش کریں تو ویسی ہی ملتی رہیں گی۔ معلومات حاصل کرنے والا اپنی ضرورت کے مطابق تلاش کرنے والے انجن میں فلٹر لگاتا اور صرف وہی باتیں وصول کرتا ہے جس کی اس کو اپنے نقطہ نظر اور نظریات کو مزید مستحکم کرنے کرنے کے لئے ضرورت ہے۔ تلاش کرنے والے سرچ انجن اس فرد کی اس عادت کو بھانپ کر اس کو وہی معلومات فراہم کرتے ہیں اور اس ترکیب کو ”فلٹر ببل“ کہا جاتا ہے۔

معلومات فراہم کرنے والے ادارے صارف کی نفسیات کے مطابق اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور فرد اپنی پسند کے مطابق اپنے نقطہ نظر سے موافق دلائل اور اس سے متفق ہم خیال لوگوں کو تلاش کر کے مخالف رائے کے حامل افراد سے دوری اختیار کر کے تنہائی میں چلا جاتا ہے اور کسی دوسرے نقطہ نظر کی غیرموجودگی میں اپنی یک طرفہ سچ کی حقانیت پر خود ہی یقین مستحکم کر لیتا ہے۔

اپنے نقطہ نظر کی حقانیت کے لئے شواہد اور دلائل تلاش کرنے اور اطلاعات فراہم کرنے کی ترکیب کو فلٹر ببل اور ہم خیال لوگوں کے ساتھ صرف اپنے نظریات کے حق میں دلائل وصول کرنے کی جگہ کو ایکو چیمبر کا نام تو اب سوشل میڈیا کے بعد دیا گیا مگر یہ روش ابتدا ہی سے موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ مخالف رائے کو نظر انداز کر کے اپنے عقائد اور نظریات کی استقامت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے دلائل تلاش کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں دینی مدارس کے نام پر قائم کیے ایسے ادارے دراصل مخصوص نظریات کے ایکو چیمبر اور تبلیغ کے نام پر فلٹر ببل کا کام بہت پہلے سے کرتے رہے ہیں۔

سیاست میں سوشل میڈیا کے استعمال سے جہاں نقطہ ہائے نظر کے ابلاغ میں آسانی پیدا ہوئی ہے وہاں شدت اور انتہا بھی واضح طور نظر آتی ہے جس سے معاشرہ اندھی تقلید اور نفرت کا بھی شکار ہوا ہے جس نے ایسے سیاسی رہنما پیدا کیے ہیں جو سیاسی نظریات کے بجائے مقبول عام نعروں کے ذریعے جذبات سے کھیل کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتے ہیں۔ مقبول عام نعروں میں کسی سیاسی یا سماجی فلسفہ، عقلی منطق اور دلیل کی گہرائی کے بجائے مذہب، رنگ نسل اور زبان جیسے فروعی اور جذباتی ایکو چیمبر پیدا کیے جاتے ہیں جہاں ایک ہجوم اکٹھا ہوتا ہے اور اپنے پسند کے موضوع پر فلٹر ببل سے معلومات اور اطلاعات کو چھانٹ کر دیگر اپنے ہم خیال لوگوں تک پہنچاتا ہے جو معاشرے میں پہلے سے موجود تقسیم کی دراڑ میں مزید وسعت اور گہرائی کا موجب بنتی ہیں۔

پاکستان کے مقتدر حلقے ابلاغ کے اس دور کو ففتھ جنریشن وار کا نام دیتے ہیں اور حکومتی سطح پر اس جنگ کے لئے باقاعدہ صف بندی کی گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی فوجیں اس جنگ کے لئے صف آرا کی ہوئی ہیں جو آئندہ ابلاغ کی اس جنگ میں مزید شدت کی غمازی ہے۔ پاکستان کا معاشرہ جو پہلے ہی انتہا پسندی اور عدم برداشت کا شکار ہے اس میں ابلاغ کی اس نئی جنگ میں مذہبی، لسانی، قبائلی اور نسلی جذبات بھٹکانے سے معاشرہ مزید تقسیم کا شکار ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے دو کروڈ لوگ جن کے ہاتھ میں سمارٹ موبائل فون ہے یہ اس ملک کا متوسط طبقہ ہے جو پوری آبادی کا 20 فیصد ہے۔ اس طبقے میں زیادہ تر لوگ معاشی فکر سے آزاد ہیں، وہ روزمرہ کے مسائل سے اس طرح نبرد آزما نہیں جس طرح یہاں 20 کروڑ لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے اپنے ایکو چیمبر بنا کر ببل فلٹر لگا رکھے ہیں اور متبادل سچائی کے بلبلے میں رہتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

پچھلے دنوں میری طرح آپ نے بھی سنا ہو گا کہ امریکہ نے وزیرستان ( شمالی یا جنوبی ) میں ڈرون حملہ کر دیا۔ یہ خبر مجھے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر دوست نے دی تو میں نے پوچھا کہ امریکہ کو اب ڈرون حملہ کرنے کا کیا فائدہ جب وہ یہاں سے جا چکا ہے۔ اس دوست نے اس خبر کی سچائی پرکھنے کے بجائے اس بات پر یقین اس لئے کیا کہ وہ پاکستان میں حکومت کی عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طریقے سے تبدیلی کی متبادل امریکی سازش کے ایکو چیمبر میں اپنے گروہ کے ساتھ ببل فلٹر لگا کر بیٹھا ہوا ہے جس میں صرف وہ معلومات موصول ہوتی ہیں جن سے ان کی بنائی متبادل سچائی ثابت ہو۔

امریکہ اور یورپ میں بیٹھے تارکین وطن جن کے ہاتھوں میں سمارٹ فون ہیں سب ایک ایکو چیمبر میں رہتے ہیں جہاں انھوں نے متبادل سچائی کا ببل فلٹر لگا رکھا ہے۔ یہ روش صرف پاکستانیوں تک مسدود نہیں امریکہ میں ٹرمپ اور برطانیہ میں بورس جانسن نے بھی اپنے ملکوں میں متوسط طبقے کی اس نفسیات سے بھر پور فائدہ اٹھایا چاہے ان کے ملک سماجی طور پر کئی دہائیاں پیچھے کیوں نہ چلے گئے ہوں۔

پاکستان میں متبادل سچائی کے ایکو چیمبر میں ببل فلٹر لگا کر رہنے والے 20 فیصد لوگوں کا 80 فیصد سے لوگوں کی سچائی سے کوئی تعلق نہیں جو اخبار پڑھ سکتے ہیں نہ ٹیلی ویژن دستیاب ہے۔ توشہ خانہ کی گھڑیاں اور گاڑیاں، نیب کے ریفرنسز، کرپشن کے کیسز اس ملک کی 5 فیصد اشرافیہ کا معمول ہے، ۔ 20 فیصد متوسط طبقہ کے لوگ ہر دور میں تبدیلی کے نعرے کے پیچھے بھاگتے ہیں اور مایوس ہو کر کچھ عرصے کے لئے غیر سیاسی بن جاتے ہیں اور پھر ایک اور راہنما کے جھنڈے اٹھا کر نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔

اس ملک کی 80 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بہتر معیار زندگی اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت ایک المیہ کا شکار اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے ہمارے شہر بھی کچی آبادیوں کا شکل اختیار کر رہے ہیں۔ جب تک یہ 80 فیصد لوگ اٹھ کھڑے نہ ہوں حقیقی تبدیلی کا خواب ایک خواب ہی رہے گا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan