قانون کی حکمرانی!


  

کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیابی کا دار و مدار قانون کی حکمرانی اور قانون کی پاسداری پر ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالا دستی کا تصور ہی قوم میں نظم و ضبط اور حکمرانوں کے اختیارات اور ان کے دائرہ کار کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ عوام کی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں کو طے شدہ ضابطوں اور اصولوں کے مطابق ڈھالنے اور قانون کے احترام کی بنا پر اپنی قومی تہذیب و تمدن کو استوار کرنے اور اپنی شناخت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں سیاسی ’سماجی و مذہبی راہنماؤں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے‘ بالخصوص ریاست کے معرض وجود میں آنے اور معاشرے کی تشکیل پانے کے بعد بلا امتیاز رنگ و نسل ’زبان‘ مذہب ’جنس‘ ذات ’سیاسی رائے‘ معاشی و سماجی حیثیت ’جغرافیائی یا علاقائی بنیادوں پر کسی قسم کی امتیاز تفریق کے بغیر قانون کے عمل داری کے لحاظ سے تمام باشندگان ریاست کو مساوی سلوک کا مستحق گرداننا‘ ریاست و حکومت کے بنیادی اور ضروری فرائض میں شامل ہے۔

قانون کی عملداری سے ہی معاشرے میں انصاف کے قیام کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور سماجی عدل قائم ہوتا ہے۔ جس سے قوم کے اندر سیاسی استحکام سے اور یکجہتی جنم لیتی ہے اور قوم بحیثیت مجموعی ترقی اور ارتقاء کی راہوں پر گامزن ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر انسانی گروں ’معاشرہ اور ریاست اجتماعیت قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی ضابطہ کار‘ کتاب قانون یا دستور حیات بناتی ہے اور اس کی روشنی میں کاروان حیات کو چلایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اسلامی معاشرے اور مسلمان قوم کو پورے عالم پر فوقیت حاصل رہی کہ ان کا ضابطہ حیات تشکیل دینے کے لیے نہ کو کسی دوسری قوم کی دریوزہ گری کی ضرورت پڑی ہے اور نہ ہی کسی اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ’بلکہ ان کی اپنی قومی روایات اتنی شاندار رہی ہیں کہ اگر وہ قانون کی حکمرانی اور اصولوں کی پاسداری کی طرف تھوڑی سی بھی توجہ دیں تو وہ اقوام عالم میں منفرد‘ باوقار تہذیبی مقام اور پہچان دوبارہ قائم کر سکتے ہیں۔

لیکن افسوس ہے کہ ہم میثاق مدینہ ’خطبہ حجتہ الوداع کے اسباق اور خلافت راشدہ کے رول ماڈل کو بھول چکے ہیں۔ قانون اور ضوابط موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ روایات ہیں مگر ان کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ قانون شکنی اور طے شد ضوابط سے بے اعتنائی کی روش روز بروز پختہ ہوتی جا رہی ہے‘ جس سے معاشرے میں اعتدال ’توازن اور سماجی انصاف ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے اسباب‘ محرکات کیا ہیں اور اس کا تدارک اور تلافی کیسے کی جا سکتی ہے ’یہ الگ موضوع ہے اس پر بحث اس وقت میرے پیش نظر نہیں‘ قانون کی حکمرانی کے حوالے سے یہ تمہیدی اور اصولی بات میں نے اس پس منظر میں دوہرائی ہے کہ آج بھی اگر طے شدہ اصولوں ’ضابطوں کی پاسداری اور قانون کی عملداری کے ذریعے کار حکومت کو چلایا جائے تو معاشرے میں انصاف اور میرٹ کا قیام ممکن ہو سکتا ہے‘ جس سے عوام میں یکجہتی ’اتحاد اور ہم آہنگی کی فضاء فروغ پا سکتی ہے اور بھائی چارے‘ اخوت اور رواداری کے جذبات ابھر سکتے ہیں ’اگرچہ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ بالخصوص ایک ایسے معاشرے میں جہاں قانون شکنی اور بے اعتدالی ایک قومی مزاج بن چکا ہو۔ سیاسی‘ برداری اور سرمایہ کی قوت اور ذاتی اثر و رسوخ کو ہی طاقت کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہو۔ قانون کی پاسداری کے ذریعے کار حکومت معاشرت اور معیشت چلانا دشوار ترین کام ہے۔

مجھے پانچ سال وزیر اعظم آزاد کشمیر (وقت) سردار سکندر حیات خان صاحب کے ہمراہ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں ’میں نے محسوس کیا ہے کہ موصوف غیر معمولی سیاسی اور انتظامی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کار حکومت کو چلانے کے لئے قاعدے‘ قانون اور رولز آف بزنس کی پابندی کو ہر موقع پر ملحوظ خاطر رکھنے کی صحت مند روایت کو پوری طرح قائم رکھنے کی کوشش کی ہے ’مختلف شعبہ ہائے حکومت سے متعلق احکامات کے اجراء کے وقت انہوں نے فائلوں کو سیاق و سباق کے حوالے سے انتہائی عرق ریزی سے پڑھا اور ذاتی پسند‘ ناپسند ’سیاسی تقاضوں‘ گروہی مصلحتوں ’برادری مفادات کو سامنے رکھنے کے بجائے قاعدے‘ قانون اور اجتماعی قومی مفاد کو پیش نظر رکھا اور لوگوں کے کام ان کے حق اور ضرورت کی بناء پر سر انجام دینے کی سپرٹ کو پوری طرح قائم رکھا جس کی وجہ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں ’سماجی شعبوں میں تعلیم‘ صحت عامہ ’مواصلات اور دفاعی شعبوں میں ہمہ گیر اور یکساں تعمیر و ترقی کے مواقع‘ آثار اور تبدیلیاں واضح ہو کر سامنے آئیں۔

تعمیر و ترقی کے حوالے سے مختلف شعبوں میں حکومت کی کارگزاری کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ زیر نظر صفحات میں ’میں ان سینکڑوں احکامات میں سے چند ایک کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے‘ جو حکومتی امور کی انجام کے لیے مختلف اوقات میں جناب وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان صادر فرماتے رہے جو ان کے اپنے قلمی ہیں۔ میرے خیال میں گڈ گورنس کا تصور بھی یہی ہے کہ طے شدہ قاعدے قانون اور متعین شدہ اصولوں کے مطابق ریاستی ادارے اور حکومتی شعبہ جات اپنا اپنا کام کریں ’اس سے میرٹ کی بالا دستی بھی قائم ہوتی ہے اور انصاف کے ثمرات بھی معاشرے میں محسوس ہوتے ہیں‘ جناب وزیر اعظم (وقت) سردار سکندر حیات خان کی قیادت میں حکومت نے قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں انہیں آزاد کشمیر کی آئینی اور سیاسی زندگی میں کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

ایک مثال دے رہا ہوں کہ زکوٰۃ منافع فنڈ ہمیشہ وزیر اعظم کی صوابدید پر رہا جہاں چاہے خرچ کرے ’لیکن محترم سردار سکندر حیات خان نے اقتدار سنبھالتے ہی زکوٰۃ منافع فنڈ کے استعمال کے رولز بنوائے جس سے مستحق مریضوں کے علاج معالجہ کے علاوہ مستحق طلباء کے لیے وظائف اور مستحق اداروں کے لیے مالی امداد شامل تھی‘ نیز صدر اور وزیر اعظم کے اس فنڈ پر اختیارات محدود کر دیے گئے۔ مجھے اس امر کا ادراک ہے کہ مختلف معاملات کے بارے میں جہاں حکومت کی اتھارٹی ہو احکامات صادر کرنا ایک معمول کی کارروائی اور رسمی بات ہے ’مگر ان صفحات میں ایسے احکامات کو جمع کیا گیا جو ان تمام سیاسی اکابرین حکومت اور سرکاری حکام کے لیے نمونہ عمل اور بہترین گائیڈ لائن ثابت ہو سکتے ہیں جو قانون کی پاسداری اور طے شدہ ضابطوں کے مطابق کار حکومت چلانے کی خواہش رکھتے ہوں۔ (کتاب قانون کی حکمرانی‘ اکرم سہیل ’اشفاق ہاشمی سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments